بول کہ لب آزاد ہیں تیرے……………حرا کرامت
کیا خوب کہا ہے فیض احمد فیض نے۔۔۔۔۔ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے میں بولنا چاہتی ہوں۔ سب کو اپنی کتھا سنانا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ میرے لب آزاد ہیں لیکن کیا بولنے کے لئے صرف لبوں کا آزاد ہونا ضروری ہے؟ کیا لفظوں کی آزادی کوئی معنی نہیں رکھتی؟ کیا ذہنوں کی آزادی سے کسی کا کوئی سروکار نہیں؟ میں بولنا چاہتی ہوں لیکن میں جس معاشرے سے تعلق رکھتی ہوں اسکا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ میرے لب تو آزاد ہیں لیکن ذہن قیدی کی حیثیت رکھتا ہے۔ میری سوچوں پر روایتوں کی حکمرانی ہے اور میرا دل اپنی آزادی کے لٹ جانے پر نوحہ کناں ہونے کو بے تاب ہے لیکن مجھے ابھی بھی خاموش رہنا ہے کیونکہ میرے لب آزاد ہیں لفظ نہیں۔ پر یہ روایت تو صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ کیا کوئی نہیں جو اس روایت کو ٹھکرا سکے اور کہہ سکے کہ ہاں میں آزاد ہوں۔ آخر کب تک لوگ ان فرسودہ رواجوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔۔۔ آخر کب تک!!!!!!! پر نہیں۔۔۔۔ اب کی بار ایسا نہیں ہو گا کہ اس بار بارش کا پہلا قطرہ مجھے بننا ہے۔ اب کی بار میں نے ٹھان لی ہے کہ میں خود کو ان فرسودہ روایتوں کی بیڑیوں سے آزاد کرا کے رہوں گی اور ثابت کروں گی کہ میرے لب ہی نہیں میرے لفظ بھی آزاد ہیں۔ اور کل جب کوئی کہے گا کہ “بول کہ لب آزاد ہیں تیرے” تو میں فخر سے کہہ سکوں گی۔۔۔۔ ہاں آج لب آزاد ہیں میرے۔۔۔۔۔۔ آج لفظ آزاد ہیں میرے یہ بھی ممکن ہے کہ جب میں لفظوں کو لبوں سے آزاد کر دوں تو میری سانسوں کو خاموش کر دیا جائے۔۔۔۔۔ میری آواز کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا جائے۔ لیکن مجھے پرواہ نہیں کیونکہ پہلے قطرے کا وجود ختم کر دینے کے باوجود یہ لوگ بارش کو روک نہیں پائیں گے۔ ایک آواز کے خاموش ہو جانے سے ہزاروں زہن آزاد ہو جائیں گے اور پھر ان کو قید کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہو گی۔۔۔۔۔۔ پھر ہر شخص یہی کہے گا آج لب آزاد ہیں میرے آج لفظ آزاد ہیں میرے