عبداللہ… تبصرہ:حمزہ سجاد تارڑ
گو کہ میں اسی کشمکش میں تھا کہ عبد اللہ پہ کچھ لکھا جائے یا پیرِکامل پہ!!
کافی مشکل فیصلہ تھا بہرحال عبد اللہ کے لیے دل سے صدا نکلی کہ اسی پہ کچھ لکھا جائے، لکھنا کیا چند ٹوٹے پھوٹے جملے ہی ہیں قبول کیجئے گا
عبد اللہ ناول اس قدر مقبول ہوا کہ اب تیسرا حصہ شائع ہورہا ہے گزشتہ دو حصے بھی کافی زیادہ تھے بہرحال کہانی ایسی ہے کہ جو آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے!!
کوئی پانچ سات سال پہلے ایک دوست کے گھر گیا، باتوں سے بات نکلی میری نظر شیلف پہ پڑی کتاب سے جا ٹکرائی، عبد اللہ نام پڑھ کے ایک عجیب سی فیلنگ آئی گو کہ کتاب کافی ضخیم تھی میں نے وہیں ایک دو لائنیں پڑھی، کافی انٹرسٹنگ لگی سوچا مزید مطالعہ کیا جائے!!
خیر یہ تو وہ کہانی تھی کہ میری رسائی کتاب تک کیسے ہوئے تھی اب عبد اللہ کی کہانی پر آتے ہیں!!
کہانی کے مرکزی کرداروں میں ساحر(عبداللہ)، زہرا، سلطان بابا، کہانی انہی کے گرد گھموتی ہے اور مزید کرداروں سے روشناش کراتی ہے
سٹارننگ پوائنٹ ہی کمال کا تھا ناول کا آغاز ریسینگ سے ہوتا ہے، امیرزادوں کے بگڑے ہوئے بچے ایک دوسرے کو ہرانے کی تگ و دو میں لگے ہوتے انہی میں ایک لڑکا ساحر ہوتا، پڑھا لکھا،خوبصورت، بگڑا ہوا الہڑ جوان، ایسا جوان جو دین سے کوسوں دور ہوتا ہے، جو شاید ہی کبھی عید گاہ بھی گیا ہو!!
ریس کا اختتام ساحلی درگاہ کے قریب ہوتا ہے اور درگاہ کے قریب کھڑی بڑی گاڑی ساحر کو درگاہ کی طرف کھینچتی ہے
درگاہ پہ ساحر کو زہرہ نظر آتی ہے اور اس کو پہلی نظر میں محبت ہوجاتی ہے(جو کہ اکثر ناولز وغیرہ میں ہوتی)، درگاہ پہ عبداللہ نام کا ایک مجاور ہوتا ہے جسے زہرہ محبت کرتی ہے، ساحر زہرہ کے انتظار میں درگاہ پر ہی ڈیرہ ڈال لیتا ہے اور ایک نئی دنیا اسکے سامنے منکشف ہوتی ہے، وہاں اسے پتہ چلتا ہے کہ زہرہ عبداللہ سے محبت کرتی ہے
اس دوران ساحر کی ملاقات سلطان بابا سے ہوتی ہے، سلطان بابا basicaly ساحر کے ٹرینر ہوتے ہیں اس درگاہ پر ساحر کی ڈیوٹی لگا دیتے ہیں ڈیوٹی کیا ہوتی ہے دراصل اس بگڑے ہوئے جوان کو اللہ کی طرف راغب کرتے ہیں کہانی بڑی خوبصورتی سے عشق مجازی سے عشق حقیقی کی جانب ڈھلتی ہے اس دوران ساحر جو کہ اب عبد اللہ ہے سلطان بابا کے ساتھ محوِ سفر ہے مختلف شہروں،قصبوں سے ہوتے ہوئے انکے مختلف پڑاؤ ہیں عبداللہ کو سیکھنے کے لیے بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتا پے انسانی رویوں کو بہت قریب سے دیکھتا ہے زندگی کے نشیب وفراز مختلف جگہیں،مختلف لوگوں سے میل جول، غرضیکہ اس محبت نے عبداللہ کو صحیح معنوں میں زندگی کے مطلب سکھادیئے، ہر مشکل پریشانی میں اللہ کے قریب کردیا.
صوفی ازم یا بابوں کے حقیقی روپ کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح فلاح انسانیت کے لیے ایسے لوگ اپنا سب کچھ تیاگ دیتے،اللہ کی رضا میں راضی رہتے اور صبر شکر سے اس کے فیصلوں پہ عمل درآمد ہوتے.
کہانی اسی طرح تہ در تی کھلتی ہے اور قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی، مجھے تو پڑھتے ہوئے ِفیل ہوا کہ میں عبد اللہ کیساتھ کیساتھ ہوں اور یہی کہانی کا اصل مزہ!!
خیر عبداللہ اسی طرح سلطان بابا کے ساتھ لوگوں کی داد رسی کرتے ہوئے مکمل مجاور ہی بن جاتا ہے اب زہرہ بھی اسکی ثابت قدمی کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے اور اسکی دھڑکنوں میں بھی اب ساحر(عبداللہ) ہی دھڑکتا.
کہانی کافی طویل ہے اور مجھے بھی کافی عرصہ ہوا پڑھے ہاں مگر سلطان بابا کا وہ جملہ نہیں بھولے گا کبھی!
“جب جب جو جو ہونا ہے تب تب سو سو ہوتا ہے”
ایڈونچر کا میں ویسے ہی دلدادہ ہوں اور عبداللہ کی کہانی میں جو ایڈونچر ہے اس نے مزید شوق بڑھا دیا،پوسٹ کافی لمبی ہورہی اور میں نے ابھی تک اس ریویو کا صحیح معنوں میں حق ادا نہیں کیا.
ساحر سے عبد اللہ بننے میں بڑا وقت لگتا ہے اپنے من کی دنیا کو بھٹی میں جلا کر کندن بنانا پڑتا ہے دوسرے حصے کے اختتام پر کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے کہ زہرا کی شادی شہزاد سے طے پاتی، ایک حادثے کی وجہ سے شہزاد زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوتا ہے
عبد اللہ کے پاس دو آپشنز ہوتے ہیں کہ اپنے رقیب کی زندگی مانگے یا موت!
اور وہ بڑے ظرف والا کہ جس نے اپنی محبت کے لیے سب کچھ تیاگ دیا، اپنی محبت کو کسی اور کی جھولی میں ڈال دیتا ہحاور اپنے اس رقیب کی زندگی کے لیے دعا مانگتا ہے گو یہ فیصلہ کافی مشکل تھا وہ ساحر ہوتا تو کبھی ایسا نہ کرتا مگر وہ تو اب عبد اللہ تھا جس نے دوسروں کے لیے مانگنا سیکھا تھا مگر اسکے مانگنے کے باوجود وہ زندگی ہار بیٹھتا ہے اور زہرا ایک بار پھر اسکی منتظر دکھائی دیتی ہے
ٹوٹے ہوئے چند جملے قبولئے
کہ کہانیاں مکمل کب ہوتی ہیں بھلا؟ کہانی ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گی مگر کیا المیہ ہے کہ ہم اپنی ادھوری کہانی لیے ختم ہوجائیں گے!!
آخر میں ایک اقتباس!
“ہم اپنی کامیابوں کی راہ پر اپنی بے ایمانی اور ایمان فروشی کے ایسے ہی گھوڑے پر سر پٹ دوڑتے جاتے ہیں اور اپنی ہر فتح کو اپنی حکمت اور منصوبہ بندی کا مر ہون منت مان کر جیت کے نشے میں ہر سہرا اپنے سرباند ھتے ہوۓ یہ بلکل بھول جاتے ہیں کہ کہیں یہ “بے ایمان ” کامیابیاں قدرت کی کسی ڈھیل کا نتیجہ تو نہں؟”
ناول : عبد اللہ مصنف ہاشم ندیم
حمزہ سجاد تارڑ??