ممتاز مفتی کی کتاب لبیک پر تبصرہ، محمد عمر مسعود
مفتی صاحب سے میرا پہلا تعارف ان کی کتاب تلاش سے ہوا جو کہ ان کی
زندگی کی آخری کتاب تھی. تلاش کو پڑھنے کے بعد مزید شوق پیدا ہوا کہ مفتی
صاحب کو مزید جانا جائے اور دوست احباب نے بھی رائے دی کہ آپ لبیک بھی ضرور
پڑھیں.
لبیک بہت ہی عمدہ اور منفرد سفر نامہ حج ہے جسے ممتاز مفتی
صاحب نے رپورتاژ کے طور پر پیش کیا ہے. یہ رپورتاژ سیارہ ڈائجسٹ میں سولہ
قسطوں میں چھپ چکا ہے اور بعد میں اسے کتاب کی شکل میں پیش کیا گیا. اس
عظیم سفر پر نکلنے وال عام زائرین کے وہ احساسات اور کیفیات جنہیں زباں تک
لانا ہر کسی کے بس میں نہیں ان جذبات اور احساسات کو اس قدر خوبصورتی سے
مفتی صاحب نے بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا اقتباسات کی گہرائیوں میں کھو جاتا
ہے اور پڑھنے میں بے پناہ لطف محسوس ہوتا ہے.
یوں تو لاکھوں لوگ ہر
سال اس سفر سے مستفید ہوتے ہیں لیکن سب کا تجربہ اور کیفیت الگ الگ رہتی ہے
کوئی جذبات میں گم عبادت میں مصروف نظر آتا ہے کسی پر مدینے میں چالیس
نمازیں پوری کرنے کی دھن سوار ہوتی ہے اور کوئی ممتاز مفتی کی طرح اپنی ہی
سوچ اور موج میں گم نظر آتا ہے. کتاب کو پڑھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ
جیسے مفتی صاحب نے اپنے اندر کسی معصوم بچے کو چھپا رکھا ہو جو ہر چیز کو
اتنی حیرت سے دیکھتا ہے کہ جن احباب نے حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کی ہو وہ
بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ ہم نے اس زاویہ نظر سے کیوں نہیں سوچا.
کتاب کے شروع میں ذوالفقار علی تابش اس کتاب کے بارے میں رائے دیتے ہوئے
لکھتے ہیں کہ یہ کتاب باہر سے اندر کی جانب سفر کی روداد ہے. یہ حاضر کے
زوج غائب کی تصویر ہے. یہ ظاہر کے ہمزاد باطن کی کہانی ہے. یہ ساتویں سمت
کے سفر کی داستان ہے. جہاں زمان و مکان کی حدود اٹھ جاتی ہیں. یہ وقت اور
زمانے کی کسی اور ہی Dimension کا قصہ ہے. یہ عشق اور سر مستی، محبت اور
وصال کی حکایت ہے.
اس حج کے سفر پر ممتاز مفتی کے ساتھ ان کے دوست قدرت
اللہ شہاب اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر عفت شہاب بھی موجود تھی. اس کتاب میں
قدرت اللہ شہاب کی تصویر ایک غیر معمولی انسان کی تصویر کے طور پر سامنے
آتی ہے اور مفتی صاحب اگر کسی الجھن یا مسئلے کا شکار ہوتے تو مشورے کے لیے
شہاب صاحب کے پاس ہی جاتے. قدرت اللہ شہاب کی شخصیت اس کتاب کو مزید دلچسپ
بنا دیتی ہے. اس کتاب کے چند حصوں سے آپکو اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن اس
صنف میں یہ کتاب ایک ادبی شاہکار ہے اور اردو ادب میں یہ کتاب اپنی الگ
اور منفرد حیثیت قائم رکھے گی. اللہ مفتی صاحب کو اجر عظیم عطا فرمائے آمین