کتاب : تلاش
باب 9 : کریش سولائزیشن
ٹرانسکرپشن : فرحین فرحان
کتا۔۔۔۔۔ باہر کا، اندر کا
صاحبو! کیا آپ کو پتا ہےاس وقت ہم ایک کریش (Crash) تہذیب کے طیارے میں سوارہیں۔ اس طیارے میں صرف ایکسلیریٹر ہے، بریک (Brake) نہیں ہے۔ لینڈنگ کے پہیے جام ہو چکے ہیں۔
کتا۔۔۔۔۔۔باہرکا، اندر کا
سبھی جانتے ہیں کہ حادثہ ہونے والا ہے۔ ابھی ابھی ہونے والا ہے۔ لیکن کوئی مانتا نہیں۔ کیسے مانے؟ مغربی تہذیب کے زیراثرشدت کا جنون بڑھتا جارہا ہے۔ حرکت کے رقص کی لے چڑھتی جا رہی ہے۔آزادی کے جنون نے سب کچھ دھندلا دیا ہے ۔ مغرب میں آج آزادی کا دوردورہ ہے۔ سیاسی آزادی، مذہبی آزادی، جنسی آزادی، آزادی کا ایک طوفان چل رہا ہے۔ آزادی کا یہ جنون اس قدر دھول اڑا رہا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں بندشوں کی قدر پیدا ہوگئی ہے۔
ویسے تو مفکروں نے بہت پہلے بندشوں کی اہمیت کی بات کی تھی۔ایک نے کہا تھا “جانتے ہو آزادی کیا ہے؟ تمھارے کتے کے گلے کی زنجیر تمھاری آزادی ہے”
لیکن بات ایسے انداز میں کہی تھی کہ ہمارے دل میں نہ بیٹھ سکی۔ ہم سمجھے کہ آزادی کے راستے کی رکاوٹ پڑوسی کا کتا ہے۔ آزادی کا دشمن باہر ہے۔ ہم نے اپنے اندر کے کتے کی طرف توجہ نہ دی جس کے گلے کی زنجیر باہر کے کتے کےگلے کی زنجیر سے زیادہ اہم ہے۔ ہمارے مفکروں نے یہ تو کہہ دیا کہ انسان مجلسی جانور ہے لیکن انھوں نے بات کی وضاحت نہیں کی۔ اگر انسان اپنی فطرت میں مجلسی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ میل جول کا محتاج ہے، تعلقات کا محتاج ہے، رشتوں کا محتاج ہے اور ” کسے رابا کسے کارے نہ باشد کے بہشت ” کا مفروضہ غلط ہے کہ انسان کے لیے بندھن اتنے ہی ضروری ہیں جتنی آزادی۔