Talash by Mumtaz Mufti

کتاب : تلاش

باب 1 : جذبۂ احترام

ٹرانسکرپشن : زاہد ملانہ

قرآن حکیم


دوستو! باپ بڑی ہی معصوم اور احمق مخلوق ہے۔
صاحبو! کیا تمھیں پتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کس نے سب سے زیادہ ظلم ڈھائے ہیں؟
(1) ساس اور(2) باپ نے ۔بے شک ماں محبت کا سرچشمہ ہے۔وہ اپنے بیٹے کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتی ہے۔لیکن وہ سمجھتی ہے کہ وہ میرا ہے صرف میرا۔کسی دوسرے کو اسے اپنانے کا حق حاصل نہیں ہے۔پھر جب بہو گھر میں آ جاتی ہےتو وہ بیٹے کو بہو کے ساتھ shareکرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔وہ بہو کو اپنا حریف سمجھتی ہے۔حسد یا جیلیسی کا جذبہ جاگتا ہےاور وہ بہو پر بہانے بہانے سےچوری چھپے ہر ممکن ظلم ڈھاتی ہے اور بیٹے کی ازدواجی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔
باپ اپنے بیٹے کو کبھی مساوات کا حق دینے کو تیار نہیں ہوتا بیٹا چاہے بالغ ہو جائے,باپ اسے فرد کی حیثیت نہیں دے گا۔سمجھے گا کہ یہ میرے جسم کا حصہ ہے۔میرے جسم کی ایک ناپاک چھینٹ سے پیدا ہوا ہے۔بچہ ہے۔ناتجربہ کار ہے۔بے وقوف ہے۔
باپ چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا خود کو باپ جیسا بنائے باپ کے اصولوں پر چلے۔وہ نہیں چاہتا کہ بیٹا اپنے دور کے مطابق زندگی بسر کرے۔
ہر بڑا نئے دور کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔نئی جنریشن کے بارے میں سمجھتا ہے کہ وہ راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں۔کوئی باپ بیٹے کو برابری کا درجہ دینے کے لئے تیار نہیں۔وہ بیٹے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہو گا لیکن وہ اپنے خیالات کی قربانی نہیں دے گا۔ آپ سے کہہ دوں تو کیا حرج ہے کہ میری بیوی کے جذبہ احترام کی وجہ سے میں آج تک قرآن حکیم نہیں پڑھ سکا۔ میری عمر 88 سال ہو چکی ہے لیکن مجھے علم نہیں اللہ نے بنی نوع انسان کے لیے کیا پیغام بھیجا؟
یقیناً آپ میری بات پر ھنس دیں گے۔اگر میں یہ کہوں اللہ سے میرا تعارف 1955 میں ہوا تھا۔اس کے بعد ہم دونوں دوست بن گئے۔یہ دوستی آج بھی قائم ہے۔جب بھی میں فارغ ہوتا ہوں اکیلا تو وہ چپ چاپ میرے قریب آ کر بیٹھتا ہے۔پھر میں اسے اپنے دکھ درد سناتا ہوں اور وہ چپ چاپ سنتا ہے۔ سراپا ہمدردی بن کر مجھے حوصلہ دیتا رہتا یے۔اللہ سے دوستی کے باوجود ابھی تک مجھے علم نہیں کہ اللہ نے بندے کے نام کیا کیا پیغام بھیجے ہیں۔کیا کیا احکامات جاری کئے ہیں۔اس لئے کہ میں نے آج تک قرآن نہیں پڑھا۔یقین جانئیے میں سچے دل سے قرآن کو الہامی کتاب سمجھتا ہوں۔جانتا ہوں۔مجھے کامل یقین ہے کہ اسلام سے بہتر کوئی مذہب نہیں ہے۔میرا ایمان ہے کہ اکیسویں صدی میں دنیا بھر کے سائنسدان، دانشور اور مفکراس حقیقت کو جان لیں گے،مان لیں گے کہ اسلام واحد مذہب ہے جو دورِ حاضر کے لئے قابل قبول ہےاس کے
باوجود اپنی بیوی کے جذبٔہ احترام کی وجہ سے میں نے آج تک قرآن کریم کا مطالعہ نہیں کیا،نہیں کر سکا۔میری بیوی ایک نیک خاتون ہے۔وہ باقاعدہ نماز پڑھتی یے۔اگر کوئی نماز چھوٹ جائے تو وہ سارا دن جذبۂ تاسف میں مبتلا رہتی ہے۔ قرآن کو سمجھنے کے لئے نہیں بلکہ ثواب حاصل کرنے کے لئے وہ بلاناغہ تلاوت کرتی ہے۔
قرآن کریم کے لئے اس کے دل میں بڑا احترام ہے۔ وہ قرآن کریم کو ریشمی جزدان میں ملفوف رکھتی ہے۔ ایک نہیں دو تین جزدانوں میں۔ وہ قرآن حکیم کو الماری کے سب سے اونچے خانے میں رکھتی ہے۔درمیانے خانے میں رکھ دیا جائے تو وہ اسے احترام کے منافی سمجھتی ہے۔ اگر میں قرآن کو میز پر رکھ دوں تو ناراض ہوتی ہے۔کہتی ہے میز کوئی پاکیزہ جگہ نہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں قرآن کو سرھانے تلے رکھوں اور بیڈ بک کی طرح پڑھوں۔بیڈ بک ایک ایسی کتاب ہوتی ہے جسے آپ سرھانے تلے رکھتے ہیں۔جب بھی فارغ ہوئے لیٹےتو کھول کر پڑھ لی۔باقاعدگی سے سلسلہ وار نہیں۔بلکہ جہاں سے کھلی وہیں سے پڑھنا شروع کردیا۔ نوجوانی میں عام طور پر لڑکے لڑکیاں سرھانے تلے شعروسخن کی کتابیں رکھتے ہیں۔جب بھی فارغ ہوئے کتاب کھولی اور رومانی دنیا میں داخل ہو گئے۔ سنجیدہ قسم کے لوگ مشاہیر کے اقوال کو بیڈ بک بناتے ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں قرآن کو بیڈ بک بناؤں کیونکہ میں اسے کتابِ دانش سمجھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھوں لیکن میں کیا کروں میری بیوی اس کی اجازت نہیں دیتی۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button