جنت کے پتے ، نمرہ احمد
تحریر نمرہ قریشی
“اللہ جنت کے پتے تھامنے والے کو کبھی رسوا نہیں کرتا”
جنت کے پتے یہ ناول سب کے لیے ہے لیکن اگر میں یہ کہوں کہ یہ ناول سپیشلی لڑکیوں کے پڑھنے کے لیے ہے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ یہ ناول لڑکی کو حیا سلیمان کی طرح بہادر بناتا ہے حیا کی طرح دین کی طرف راغب کرتا ہے کسی کی زور زبردستی کے بجائے خود سے اور اللہ کی رضا کے لیے حجاب لینا سکھاتا ہے … عائشہ گل کی طرح باحیا ، باپردہ اور باوقار سچ بولنے والی لڑکی بناتا ہے …
خدیجہ کی طرح زندگی کو جینا سکھاتا ہے …
نمرہ احمد سے تعارف میرا اسی ناول کے ذیعے ہوا … ناول کے 1437 صفحات ہیں مگر جب اسے ایک بار پڑھنا شروع کریں تو قاری مکمل کرکے دم لیتا ہے …
ناول کے کچھ خاص کردار …
حیا سلیمان :
ناول کی ہیروئن جس کا فیملی فنکشن میں ڈانس کرتے ویڈیو لیک ہوتا ہے وہ انٹرنیٹ سے ویڈیو ہٹانے کے لیے میجر احمد سے رابطہ کرتی ہے … اور یہاں کہانی کافی دلچسپ بن جاتی ہے …
ایک اور بات جو حیا کو پریشان کرتی ہے اسکا بچپن میں ہوا نکاح اور اسکا شوہر ترکی میں رہائش پذیر ہوتا ہے …
حیا لاء سٹوڈنٹ ہوتی ہے وہ سکالرشپ کے لیے ترکی یونیورسٹی سبانجی میں اپلائی کرتی ہے جس کا دوسرا مقصد ترکی جاکر اپنے شوہر کو ڈھونڈنا بھی ہوتا ہے …
خدیجہ ( Dj ) :
خدیجہ جسے جاننے والے ڈی جے کہتے ہیں حیا کو ایئرپورٹ پر ملتی ہے وہ بھی پاکستانی سٹوڈنٹ ہے جسے سبانجی کی سکالرشپ ملی ہے … یہاں سے حیا اور اسکی دوستی شروع ہوتی ہے .
عائشہ گل اور بہارے گل :
دونوں خوبصورت ترکش لڑکیاں عبدالرحمان پاشا کے ساتھ بیوک ادا میں رہتی ہیں … بہارے گل عائشہ کی چھوٹی سی معصوم شرارتی بہن ہوتی ہے .
عبدالرحمان پاشا :
اے آر پی یعنی عبدالرحمان بیوک ادا ترکی کا انڈرگراونڈ ڈان ہے …
پنکی :
یہ ایک شی میل ہے جب حیا پاکستان میں تھی تو یہ ہر موقع پر اس کے کام آئی .
میجر احمد ایک فوجی جس کا ذکر اوپر ہوا ہے .
جہان سکندر :
جی جناب یہ ہمارے ہیرو صاحب ہیں حیا کے پھوپھو کا بیٹا + حیا کا شوہر … محترم کے باپ یعنی سکندر صاحب فوجی تھے ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ملک کی حساس انفارمیشن دشمن کو دی ہے جس کی وجہ سے وہ ملک بدر کردیئے جاتے ہیں … ہمارے ہیرو اپنے باپ پر لگا یہ داغ صاف کرنا چاہتا ہے اور وہ پاکستان کے لیے ایک خفیہ ایجنٹ کے طور پر کام کرتا ہے … ترکی کے برگر کنگ پر اسکا چھوٹا سا دکان ہوتا ہے دکان اس لیے کہا کہ ہمارے ہیرو بہت غریب آدمی ہے سالار کی طرح امیر باپ کا بیٹا نہیں ہے 😉
یہ تو تھے سارے ناول کے کردار اب نمرہ احمد نے انہیں ایک ساتھ کیسے جوڑا یہ بیحد چونکا دینے والا ہے … یہاں میں نے جن 8 کرداروں کے بارے میں بتایا درحقیقت وہ صرف 4 کردار ہیں اور یہ کیسے ہوا ناول پڑھ کر ہی جان پائیں گے آپ …
ناول میں ترکی کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے سلطان احمت مسجد کا جس طرح نقشہ کھینچا گیا ہے گویا قاری کو اپنا آپ وہاں محسوس ہونے لگتا ہے محبت سی ہوجاتی ہے اس نیلی مسجد سے اسکے پاس اڑنے والے کبوتروں اور یہاں موجود اس تلوار سے جسکا ذکر ناول میں پڑھنے کو ملے گا اسکے علاوہ ترکی کے کپادوکیہ پر بھی بہت اچھی منظر نگاری کی گئی ہے اسکے علاوہ شام اور عراق کا ذکر بھی ملے گا ناول میں …
نمرہ احمد نے ایسے ناول لکھا ہے کہ ہر ہر لفظ دل کو چھوتا ہے کچھ سینز ایسے تھے جن پر میں ناول بند کرکے گھنٹوں بیٹھ کر روتی رہی خاص طور پر خدیجہ کی ڈیتھ جس نے مجھے پورا ہفتہ سیڈرکھا …
جنت کے پتے ایک مسٹ ریڈ ناول ہے .
اب آتے ہیں تنقید کرنے والوں پر جو کہتے ہیں اتنا بڑا ناول کون پڑھے گا … تو بھئی اتنے بڑے ناول میں آپکے لیے سب انٹرٹینمنٹ کا سامان میسر ہے جو آپکو بور نہیں ہونے دے گا … باقی ناولز کی طرح یہ بھی فکشن ہے اتنا اچھا فکشن اور اسکے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اسلامک باتیں ڈالنا لڑکیوں کو پردے کی طرف لانے پر رائٹر کو داد دیں نہ کہ تنقید میں حد سے گزر جائیں یہاں میں اپنی پچھلی پوسٹ سے ایک کمنٹ کاپی کرکے پیسٹ کرنا چاہوں گی ….
منال رشید :
ہمارے زیادہ تر گھروں میں بہنیں بیبیاں بڑے نامور لکھنے والوں کی ضخیم کتابیں نہیں چاٹ رہی ہوتیں بلکہ زیادہ تر یہ ناولز اور ڈائجسٹ ہی پڑھے جاتے ہیں۔ عمیرہ اور نمرہ احمد نے روایتی پیار محبت مصالحہ والی کہانیوں سے ہٹ کر کچھ پڑھنے کو دیا۔۔ کچھ سیکھنے کو دیا۔۔ اگر تعصب کی پٹی آنکھوں سے اتار کر سوچیں تو ہم منٹو اور عصمت چغتائی جیسے بے باک انداز کو ادب میں جگہ دے سکتے ہیں اور نہایت فخر کے ساتھ دیتے ہیں لیکن اسلام کے نام پہ بکنے والی کہانی کو پڑھتے ہی ہمارے اندر کا تنگ ذہن انسان جاگ اٹھتا ہے۔۔ آخر ہیروئن نماز کیوں پڑھ رہی ہے جب کہ وہ ایک غیر محرم سے مصروف گفتگو رہی ہے۔۔ مطلب حد ہے۔ اگر یہی عمیرہ احمد یا نمرہ احمد نے ایک اسلامی کتاب لکھی ہوتی کسی اسلامی بہنوں کے ماہنامے میں تو کسی کو ان کا نام تک یاد نہ ہوتا۔۔اور یہ جو بے جا تنقید کرنے والے ہیں یہ پوچھ رہے ہوتے کہ یہ کون محترمائیں ہیں۔۔۔
آخر میں جنت کے پتے سے اپنا فیورٹ اقتباس شیئر کرنا چاہوں گی ….
دل تو مارنا پڑتا ہے، مگر ضروری تو نہیں ہے کہ ٹھوکر بھی کھائی جائے۔ انسان ٹھوکر کھائے بغیر، زخم لیے بغیر، خود کو جلائے بغیر بات کیوں نہیں مانتا؟ پہلی دفعہ میں ہاں کیوں نہیں کہتا؟ نیلی مسجد کے کبوتروں کی طرح اوپر اُڑنا کیوں چاہتا ہے؟ پہلے حکم پہ سر کیوں نہیں جھکاتا؟ ہم سب کو آخر منہ کے بل گرنے کا انتظار کیوں ہوتا ہے؟ اور گرنے کے بعد ہی بات کیوں سمجھ میں آتی ہے؟