کتابوں پر تبصرے

تنہائی کے سو سال، گابرئیل گارسیا مارکیز

مترجمڈاکٹرنعیم کلاسرا

انتخاب و ٹائپنگ : احمد بلال

پبلشرزفکشنہاوس

قیمت_600

••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••

” برسوں بعد ، فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑے کرنل ارلیانو بوائندا کے ذہن میں بھولی بسری وہ سہ پہر تھی۔۔ جب زندگی میں پہلی مرتبہ اس کا باپ اسے برف دیکھانے لے گیا۔۔ ”

یہ ابتدا ہیں ہے مارکیز کے ناول
” تنہائی کے سو سال ” کا جو مارکیز کا سب سے معروف ناول ہے۔۔ اس ناول نے مارکیز کو پورے دنیا میں مشہور کیا۔۔ 1982 میں اسے نوبل پرائز دیا گیا اور اسکے بعد 27 زبانوں میں اسکے ترجمے شائع ہوئے جن کے سینکڑوں ایڈیشن آج بھی چھپتے رہتے ہیں۔۔

ساری دنیا کے فکشن پر اس عظیم اور انوکھے ناول کے اثرات محسوس کئے جاتے رہے ہیں۔۔ لاطینی امریکہ کے ادب میں بوم کے جس عہد کا ذکر کیا جاتا ہے اسکو عروج تک پہنچانے اور عالمی ادب میں پوسٹ ماڈرن ناول کے ارتقاء میں
” تنہائی کے سو سال ” کا بہت تعاون ہے۔۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ” ڈان کیہوٹے ” کے بعد اسپینی زبان کا دوسرا ناول ہے جو کمرشل اعتبار سے بھی اتنا کامیاب رہا۔۔۔

1992 میں ناول کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر عالمی ادبی جریدے wasafiri نے بین الاقوامی ادیبوں کا ایک سروے شائع کیا جس میں سب نے اس حقیقت کو قبول کیا ہے کہ پچھلے پچیس سالوں میں گابرئیل گارسیا مارکیز کے اس عظیم ناول نے ساری دنیا کے ادب کو متاثر کیا اور نئی راہیں دیکھائی ہیں۔۔

معروف ناول نگار میلان کنڈیرا نے کہا کہ :

” جب تنہائی کے سو سال جیسا ناول موجود ہے تو ناول کی موت کا اعلان کرنا محض لغویت ہوگا ” ۔۔

1970 میں ناول پر تبصرہ کرتے ہوئے ولیم کینڈی نے نیشنل آبزرور میں لکھا کہ :

” بک آف جینیس ” کے بعد یہ پہلا ادبی شہکار ہے جیسے تمام نسل انسانی کو پڑھنا چاہیے۔۔
•••••••••

عہد نامہء قدیم کھولیں تو ” پیدائش ” کے تازہ تازہ ماحول میں ، جہاں ابھی چیزوں کے نام نہیں رکھے گئے، ” تنہائی کے سو سال ” ان چھوٹی چھوٹی حیرانیوں سے شروع ہوتی ہے جو اب بھی کہیں نہ کہیں ، دور کی بستیوں میں پکھی واس اپنے ساتھ لاتے ہیں۔۔ عجیب و غریب محدب عدسے، مقناطیس ، جانور۔۔ ایسی حیرانیاں جو بچوں میں بہتر طور پر سٹدی کرنے والی ہے۔۔۔

ہر بستی یقننا کسی نہ کسی انسان نے بسانی ہوتی ہے۔۔ جس طرح بندہ بڑا ہوتا ہے اسی طرح جگہیں بھی بڑی بوڑھی ہوتی ہے اور بالآخر مر جاتی ہے۔۔

ایسی ہی ایک بستی کی کہانی ” تنہائی کے سو سال ” میں ملتی ہے۔۔ چھ، سات نسلوں پر محیط یہ محض
” بوئنداہ خاندان ” کی کہانی نہیں بلکہ تہذیبوں کے عروج اور زوال کا وقت مقامی ثقافتوں اور انکے قصے کہانی کی روایت سے ہوکر گزرتا ہے۔۔۔

اس ناول میں ہمیں متضاد موضوعات ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں۔۔ موت ، پیار، نفرت ، جنگ ، امن ، جوانی ، بڑھاپا، ان موضوعات کے ساتھ ساتھ ناول کی خوابناک فضا قاری کے باطن میں سلگنے کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔۔ اس ناول میں ہم قدم قدم پر حیرت سے دوچار ہوتے ہیں۔۔ یہ حیرت حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کے انوکھے پن سے پیدا ہوتی ہے۔۔ اس ناول میں مارکیز کی ابتدا زندگی کے حالات و واقعات اس کی اپنی نانی اور خالاؤں سے سنی زبانی روایات اور داستانیں ایک بڑے کینوس پر متشکل ہیں اور مارکیز کا زرخیز تخلیل ان کہانیوں کو حیرت انگیز شکل دینے لگتا ہے۔۔

تنہائی کے سو سال کا ماحول بوسیدہ ، لاتعلق اور زوال آمادہ تنہائی سے بھرا پڑا ہے۔۔ جنگ اور تشدد سے گزر کے واقعات اس تنہائی کو اور بھی شدید کرتے ہیں۔۔ اس بے گانہ اور خالی تنہائی کو اس کے کرداروں کے پاس بھرنے کے لئے جنسی عمل کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔۔۔ اگر اس ناول میں جنسی اختلاط کی بہتات نظر آئے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔۔ یہ اس لاتعلق تنہائی کو بھرنے کا عمل ہے۔۔

سو سال کے عرصے میں ” ماکوندو ” بڑھ کر قصبہ ، قصبے سے شہر کے مندراج طے کرتی ہے۔۔ ریل کی آمد تک تبدیلی کی بے شمار حیرتوں سے گزرتی ہے اور بالآخر تنہائی میں مبتلا ہوکر مر جاتی ہے۔۔۔ اور
” بوئندا خاندان ” کی آخری نشانی ” ارلیانو ” پر ” میلکیا دیس ” کا یہ راز منکشف ہوتی ہے کہ :

” تنہائی کا یہ عذاب کسی ایک ایک فرد کا نہیں ، کسی ایک خاندان یا نسل کا بھی نہیں بلکہ نئے اور پرانے وقت کی دہلیزِ پر پوری انسانی تہذیب کا ہے جسے پھر سے آباد ہونے کا اس دھرتی پر دوسرا موقع نہیں ملتا۔۔ ”
•••••••
ناول کے بارے میں مارکیز کا کہنا ہے کہ، وہ بصری منظر جس سے تنہائی کے سو سال کی ابتدا ہوئی، اس میں ایک بوڑھا شخص ایک بچے کو برف دکھانے لے جا رہا تھا جو ایک سرکس میں عجوبے کے طور پر نمائش کیلئے رکھی گئی تھی۔۔۔ یہ میرے نانا کرنل مارکیز تھے۔۔۔ یہ بات ہوبہو اسی طرح تو پیش نہیں آئی تھی مگر اس کی بنیاد بہرحال واقعے ہی پر ہے۔۔۔ نانا ایک روز مجھے اونٹنی دکھانے سرکس لے گئے۔۔۔ اگلے روز جب میں نے انہیں بتایا کہ میں نے نمائش میں رکھی ہوئی برف تو دیکھی ہی نہیں، تو وہ مجھے بنانا کمپنی کی چھائونی میں لے گئے، منجمد سمندری مچھلیوں کا ایک کریٹ کھلوایا، اور مجھے اس میں ہاتھ ڈالنے کو کہا۔۔۔

میرا ناول’’ تنہائی کے سو سال‘‘ سارے کا سارا اس ایک منظر سے پیدا ہوا۔۔۔۔

•••••••
جب میں تنہائی کے سو سال لکھنے بیٹھا تو درحقیقت میں ادب میں ان تمام تجربات کے اظہار کا ذریعہ تلاش کرنا چاہتا تھا جو بچپن میں مجھ پر اثر انداز ہوئے تھے۔۔ بہت سے نقاد اس کتاب میں بنی نوع انسان کی تاریخ کے بارے میں کوئی حکایت یا تمثیل دیکھتے ہیں لیکن ، میں صرف اپنے بچپن کی دنیا کی دنیا کی ایک تصویر چھوڑ جانا چاہتا تھا جو ، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایک بہت وسیع اور غمناک مکان میں بسر ہوا تھا ، جہاں میری بہن تھی جو مٹی کھایا کرتی تھی ، میری نانی تھیں جو مستقبل کی پیش گوئیاں کیا کرتی تھی ، اور یکساں ناموں والے بے شمار رشتے دار تھے جو مسرت اور دیوانگی میں کوئی خاص تفریق نہ کر پاتے تھے۔۔
••••••••
تنہائی میرے نیزدیک ایک ایسا مسلہ ہے جس سے ہر کوئی دوچار ہوتا ہے۔۔ ہر ایک جدا جدا ذریعے اور طریقے سے اس کا اظہار کرتا ہے۔۔ یہ احساس اتنے بے شمار ادبیوں کی تحریروں میں نفوذ کرتا نظر آتا ہے اگر چہ ان میں سے بعض اس کا اظہار غیر شعوری طور پر کرتے ہوں گے۔۔ میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔۔ اور بلاشبہ تنہائی کے سو سال کا بنیادی خیال تنہائی ہی ہے۔۔
•••••••••••
” تنہائی کے سو سال ” کی مقبولیت میرے لئے ایک معما ہے جو کتاب میں نے چند بہت قریبی دوستوں کو ذہن میں رکھ کر لکھی تھی ، کیونکر ہاتھوں ہاتھ بکنے لگی ۔۔۔

میں نے اس کو ناول کو اٹھارہ برس کی عمر میں لکھنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ اس وقت میں نے اسے
” مکان ” کا عنوان دیا تھا ، کیونکہ میرا خیال تھا کہ پوری کہانی بوئندیا خاندان کے مکان میں وقوع پذیر ہوگئی۔۔۔ لیکن میں اس مقام تک بھی نہ پہنچ پایا کہ کہانی کی ایک مسلسل ساخت وجود میں آسکتی۔۔۔ میں نے اس کے صرف متفرق حصّے لکھے ، جن میں سے چند ان اخباروں میں شائع ہونے جن میں میں نے ان دنوں کام کر رہا تھا۔۔۔۔ لیکن میں اس ناول پر کام جاری نہ رکھ سکا ، کیونکہ اس وقت نہ تو میرے پاس اتنا تجربہ تھا ، نہ اتنا ضبط ، اور نہ اتنی تکنیکی مہارت کی اس قسم کی کتاب لکھ سکتا۔۔۔۔

لیکن یہ کہانی میرے ذہن میں پندرہ برس تک گھومتی رہی۔۔۔ مجھے اس کو بیان کرنے کے لئے مناسب لہجہ نہیں مل رہا تھا۔۔۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ مجھے سچا سنائی دے۔۔۔ ایک روز مرسیدس اور میں بچوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے اکا پلکو جارہے تھے، یہ لہجہ ایک کوندے کی طرح میرے ذہن میں آیا۔۔۔ یہ کہانی مجھے اس انداز میں بیان کرنی تھی جس انداز میں میری نانی ، اپنی کہانیاں سنایا کرتی تھیں، اور مجھے اس سہ پہر سے آغاز کرنا تھا جب ننھے بچے کو اس کے نانا پہلی بار برف دیکھانے لے گئے تھے۔۔۔ خط مستقیم میں بیان کی گئی تاریخ ، جس میں غیر معمولی عنصر نہایت معصومیت کے ساتھ روز مرہ میں گھل جاتا ہے۔۔۔

••••••••••
حوالہ : کتاب، امرود کی مہک از مارکیز
زوال آمادہ تنہائی اور گارسیا مارکیز از اشولال،
مارکیز : یاد ، طلسم اور تخلیل کا امتزاج از امجد طفیل،

•••••••••

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button