کتابیں

تلاش

ممتاز مفتی کی آخری کتاب تلاش ان کی وفات کے چند ماہ بعد 1996ء کے اوائل میں گورا پبلیشرز کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔ اس سے پہلے یہtalash کتاب قومی ڈائجسٹ لاہور میں قسط وار شائع ہوئی۔

ممتاز مفتی کی یہ کتاب ان کی نوے سالہ زندگی کے افکار و نظریات کو نچوڑ پیش کرتی ہیں۔ ان کی فکر کئی پیچیدہ راستوں پر بل کھاتی اور کئی نئی نئی پگڈنڈیاں بناتی بالآخر جس مقام پر جا پہنچتی ہے اس کا خلاصہ اس کتاب میں درج ہے۔ ممتاز مفتی کا کہنا ہے کہ یہ کتاب لکھنا ان پر عائد کر دیا گیا تھا۔


تبصرہ : ہارون حمید
کتاب کا نام تلاش ہے۔ لیکن کس کی تلاش؟ کتاب کو پڑھنا شروع کریں تو مفتی صاحب آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو ایک اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ اس دنیا میں جہاں انسان کو اپنے رُبرو ہوتا پڑتا ہے، اپنی تلاش کرنا پڑتی ہے۔ ہمیں لگتا تھا کہ شاید رب کو ڈھونڈنا ہے۔ لیکن مفتی صاحب کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو ڈھونڈ لو تو پتہ چلے گا کہ آپ کا ‘رب’ تو خود آپ کی تلاش میں ہے۔ آپ کا منتظر ہے۔ مفتی صاحب کہتے قرآن کو سمجھو، قرآن کو سمجھنے سے اپنا آپ ملتا ہے۔ وہ اپنا آپ جو ہم دنیا کی بھول بھلیاں میں گُم کر بیٹھے ہیں۔ اپنا آپ مل جائے تو تلاش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ جیسے کوئی غیر حاضر پووفیسر سر پر رکھی ہوئی عینک بھول کر چاہے ساری دنیا ڈھونڈ مارے۔ وہ اسے نہیں ملے گی کیوں کہ وہ تو اس کے پاس ہی ہے۔
“بس تھوڑی توجہ کی ضرورت ہے”


تبصرہ: عالیہ یونس
ایک ایسے سفر کی کہانی جس میں تخیل میں چھپی بیٹھی ایک ذات کھل کے اور روشن ہوکر  سامنے آگئی۔اُسی تناظر میں جس میں مسافر نے دیکھنا چاہا،جس پہ قرنوں سے سختی ،قدامت اور ادب کی چھاپ لگائی جا چکی تھی۔۔اس سفر میں اُس چھاپ کواتار کے اس کا وہ روپ سامنے لایا گیا جو اہلِ دل چاہتے تھے۔مامتا بھرا،محبت بھرا،اور حسرت بھرا۔۔وہ جسے تقدس کی زنجیروں میں جکڑ کر،خوف کے جز دان میںلپیٹ کردوستی کی سرحد سے بہت دورکسی اُونچی طاق میںسجا دیا گیا۔۔اور زمانوں،قرنوں کی گرداُس پر جمتی رہی۔ اس مسافر نے اُس گرد کوجھاڑ کے اُس محبت کامنتظر چہرہ دیکھایا۔۔کہ ضروری نہیںجو مقدس ہو اعلیٰ ہو وہ الگ ہو تم سے۔۔تم اسے اپنے ساتھ رکھو گے تو وہ زیادہ سمجھ میں آئے گا۔۔اک مسافر کی کہانی جس نے اپنے سفر میںاپنے ساتھ بہت سے اور لوگوںکے خیال پہ جمی گرد صاف کر ڈالی۔۔جس نے خداسے اُسے ذات بنایا۔ ہماری اپنی ذات۔۔ہمارا اپنا جزو۔

Related Articles

4 Comments

  1. السلام علیکم؛بہت معذرت سے عرض ھے کہ،ہارون حمید نے نہایت سادہ الفاظ میں اور عوامی لہجے میں کیفیت بیان کی ھے لیکن محترمہ عالیہ یونس کے الفاظ سے ایسے محسوس ھو رھا ھے جیسے مشکل گرائمر سے متاثر کرنے کی کوشش کی جا رھی ھو،،،بہرحال بہت شکریہ مفتی ازم عام کرنے کا،

    1. Salik watto!!!! Be hadd shukria sir!!! Per ye wo sb tha jo mjh k andr se nikla… Koi hair phair ni kr paai…. Allah aap ka bhla kray… Jazak Allah

      1. Aliya younas , naraz na hony ka bohat shukrya, asl waja aap k alfaaz ka mushkal hona ni balke mera just matric pass hona hy or wo bhi 1 pind k school sy , is liya mujhy padi likhi zubaan samjh ni aati , bss awami zuban hi thodi bohat samjhta hn,,, hm aap ki ilmi qaablyat k dil sy qaail hn ,,, plz never mind,

  2. ھم اس ویب سائیٹ کے تمام ارکان ،ڈیزائنر سے لے کے ہیلپر تک تمام دوستوں کے مشکور ہیں جنہوں نے مفتی صاحب کے روشن کیے ھوئے محبت کے چراغ میں اپنا تیل کا حصہ ڈالا،،سپیشل تھینکس ،عکسی مفتی اینڈ سہیل تاچ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button