Samay Ka Bandhan
ماڈ ہاؤس—سمے کا بندھن
فردوس کالونی میں، فن کار روڈ پر، ایک بنگلہ واقع ہے،فوارہ چوک کی ٹکر پر۔ اسے دیکھ کر حسّاس راہ گیر رُک جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے کوئی
مسجد براق سفید چادر اوڑھے درختوں کی آوٹ میں بیٹھی ہو۔خاموش جب،پُرسکون، بےنیاز۔
یو لگتا ہے جیسے وہ بنگلہ نروان حاصل کرنے کے لئے بنایا گیا ہو۔ باہر تختی پر ماڈل ہاؤس لکھا دیکھ کی آپ گھبرا جاتے ہیں۔ ماڈ تو حرکت ہے، اضطراب ہے، بےچینی ہے ، زندگی ہے اس بودھ کے ٹوپی کو ماڈ سے کیا تعلق۔۔۔
اندر بیک یارڈ میں ڈیڈی سوٹ پہنے ٹائی لگائے سٹف کالر سمیت راکنگ چئیر پر جھول رہے ہیں۔ ہاتھ میں پائپ ہے۔ گود میں ماچس ہے۔بار بار پائپ سلگاتے ہیں۔ وہ سلگتی ہے بجھ جاتی ہے۔ پھر سلگتی ہے پھر بجھ جاتی ہے۔ بیچاری جلتی بجھتی روشنی کی طرح ٹم ٹم کررہی ہے۔ وہ خود بھی جلتی بتّی کی طرح ٹم ٹم کررہے ہیں۔ چہرے پر کبھی سُرخ بتّی جل جاتی ہے کبھی سبز۔ ظاہر ہے کہ سوچوں میں پڑی ہیں۔ جسم بھی جھول رہا ہے زہن بھی۔
ممی اندر ڈریسنگ ٹیبل پر بیٹھی ہیں۔سامنے بیبیوں شیشیاں بوتلیں قطار باندھے کھڑی ہیں۔بیچاری بوتلیں کیا کریں۔مقابلہ سخت ہے۔ مینوپاز سر پر آکھڑا ہے۔جسم ڈھلنے لگا ہے۔ وزن بڑھتا جارہا ہے۔چہرے کے مسام یوں پھیل گئے ہیں جیسے بارش میں گھاس پھوس پھیلتے ہیں۔ پھر بھی بوتلیں شیشیاں حسب توفیق بازیابی کی کوشش میں لگی ہوئی ہیںممی کا یہ شغل خاصا دائمی ہے۔ یا تو وہ گھر سے باہر رہتی ہیں، اور جو گھر میں ہوں تو ڈریسنگ ٹیبل پر ڈیڈی تو اس تفصیل کو عرصے سے نظر انداز کرچکے ہیں کوئی یاد دلائے تو مسکرا دیتے ہیں اور زیر لب بوڑھی گھوڑی لال لگام کہہ کر دل ٹھنڈا کرلیتے ہیں۔
بچے اس تفصیل کو معاف نہیں کرسکے۔ خصوصاً بڑی عمیرا ہے۔ اوّل تو ادھر دیکھے گی نہیں۔ اسے دیکھے بغیر پتا ہے کہ ممی کہاں بیٹھی ہیں۔ کیسے بیٹھی ہیں۔ عمیرا میک اب سے بیر نہیں۔ میک اب کرو بےشک کرو۔ ناو جب تک پانی میں ہے، اسے۔ چلاو۔ جب وہ خشکی پر آچڑھے پھر پتورا چلانے کا فائدہ؟ اسے ممی کے میک اپ پر یہی شکایت ہے کہ ممی ریت پر تیرنے کی کوشش میں لگی ہے۔ منجھلے عمران کو گھر کے سبھی لوگوں سے شکایت ہے۔ کوئی بھی اسے لٹ نہیں دیتا۔ ہر کوئی خود میں کھویا ہوا ہے۔ ممی ویلفیر کی دھن مئں لگی ہیں۔ ہر وقت ویلفئیر کا چھنکنا چھنکاتی ہیں۔ آج یہاں میٹنگ ہے کل وہاں سب کمیٹی ہے پرسوں اُدھر فنکشن ہے۔
ڈیڈی بیک یارڈ میں راکنگ چئیر ہر جھولتے رہتے ہیں۔ عمیرا ورکنگ وومن بنی پھرتی ہے۔ ٹپ ٹپ ادھر آتی ہے کام کم ٹپ ٹپ زیادہ۔ اسے سارے گھر پر غصہ ہے یہ کیا گھر ہے! انہوں نے سیاحوں کا اِن ہے۔ دن چڑھا اور سیاح جگہیں دیکھنے کے لئے نکلے رات پڑی تو آکر پڑے رہے۔صرف چھوٹی آنسہ ہے جو سارا دن فون سے دل بہلاتی ہے۔
عمران کو ان حالات پہ غصہ آتا ہے تو وہ اپنا موٹر سائیکل نکال کر باہر جاتا ہے سالینسر پہلے ہی نکالا ہوتا ہے۔سکو کلو میٹر کی رفتار اور ساتھ غاؤں غاؤں۔ غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو گھر لوٹ آتا ہے یار دوستوں کی منڈلی سے مل کے کوک پیتا ہے برگر کھاتا ہے ٹوہل ودہوم
ڈارلنگ” ڈیڈی نے آواز دی۔
ممی چونکی۔ دیکھا ناں وہی بات ہوئی مجھے پتا تھانہ جب میرے آخری ٹچز رہ جائینگے تو مجھے آواز دینگے۔ انھیں پتا ہے کہ میں پہلے ہی پانچ منٹ لیٹ ہوں۔ بیگم شائستہ بخاری راہ دیکھ رہی ہیں۔ یہ تو چاہتے ہی نہیں میں اپنی کمنٹ منٹس پوری کروں۔جلتے ہیں ناں اس لئے۔” ڈارلنگ ڈیڈی نے پھر آواز لگائی” یہ کب سنے گی۔ انہوں!جب لال لگام کسی ہو اس وقت نہیں سنتی۔” ڈارلنگ” انہوں نے پھر آواز دی۔۔۔مجھے بلایا ہے جانی؟ ممی نے یوں مٹھاس چھلکائی جیسے شہد کی بوتل ہو…
اگر فرصت ہو تو میری اک بات سن جانا” ڈیڈی بولے..
” ہوں.. فرصت ہو.. اچھی طرح معلوم ہے کے میرے پاس وقت نہیں ہے” آ رہی ہوں ڈارلنگ.. ممی نے مسکراہٹ میں بھیگا ہوا جواب دیا..
بننا سنورنا ختم نہیں ہوتا آئیں گی کیسے، ڈیڈی نے سوچا.. اس ڈریسنگ چیئر کو تو وکٹوریہ کراس ملنا چاہئے.. بچاری اتنا بوجھ اٹھاتی ہے… ٹیک یوئر ٹائیم ڈارلنگ” وہ با آوآز بلند بولے…
ڈیڈی کی آواز سن کر عمیرا رک جاتی ہے… وہ تو ٹہل رہی تھی.. ادھر سے ادھر ادھر، سے ادھر… اطمینان اور آرام کی ٹہل نہیں وہ ٹہل جو سکندر اعظم نے دریائے اٹک پار کرنے سے پہلے اپنے خیمے میں لگائی تھی… ایسی ٹہل گھر میں عام تھی.. ھر کوئی کسی نہ کسی وقت لگاتا رہتا تھا… کبھی ڈیڈی دفعتاً راکنگ چیئر سے اٹھ بیٹھتے اور دالان میں ٹہل لگاتے… اس کی وجہ تو سبہی جانتے تھے.. جب بھی گھر میں بجٹ کا دھارا چڑھ جاتا تو اسے عبور کرنے کے لیئے وہ ٹہل لگاتے… ویسے گھر میں چھوٹے موٹے مالی امور کو سلجھانے کے لیئے راکنگ چیئر کی ٹہل ہی کافی تھی، وہ بھی تو ایک ٹہل ہی تھی نا…
عمران بے توجہی کے خلاف غصے سے بھر جاتا تو ٹہل لگاتا، اور آخر موٹرسائکل کی چیخم دھاڑ اور سو کلومیٹر کی زوں میں تسکین ڈھونڈھتا…
چھوٹی آنسہ بھی ٹہل لگاتی تھی.. تنہائی اور اکیلے پن کے خلاف ٹہل.. اسے یہ شکایت تھی کے گھر میں کچھ بھی نہیں ہوتا تھا.. کچھ بھی نہیں… وہی روٹین… ممی کی مسلسل تیاری اور پھر روانگی.. ڈیڈی کی مسلسل جلتی بجھتی پائیپ اور پھر میٹنگ کانفرنس… سوشل کالز… باجی کی مسلسل ٹپ ٹپ اور پھر سہیلہوں کا جھگمٹ.. وہ بچاری مسلسل دعائیں مانگتی، یااللہ کچھ ہوجائے، ایسا کچھ جو در و دیوار ہلا دے… پر رات پڑتی، دن چڑھتا پھر رات پڑ جاتی، اور کچھ بھی نہ ہوتا… پھر وہ مایوس ہوکر رانگ نمبرز ڈھونڈتی.. اس کی نوٹ بک میں کئی ایک دلچسپ رانگ نمبرز لکھے ہوئے ہوتے تھے.. پتا نہیں ایسا کیوں ہوتا تھا کے نوجوان اکھڑی اکھڑی باتیں کرتے تھے… عمر رسیدہباتوں کے تار باندھ دیتے…. ایسے لچھے بن دیتے کہ ان سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا.!
گھر میں صرف امی تھی جس نے کبھی ٹہل نہیں لگائی تھی! اسے ٹہل لگانے کی فرصت ہی نہ تھی…! وہ تو گھر کی محور تھی..!
سارا گھر گرد گھومتا تھا..! اگرچہ آفٹر نون باہر رہتی پھر بھی گھر اسی کی مرضی پر چلتا..! حالات بگڑنے لگتے تو بچوں کو ڈانٹ دیتی اور میاں پر شہد کی بوتل کی پھوار چلا دیتی!
چار چھ بار ایسے پیار سے ڈارلنگ کہتی کی ڈیڈی کی پھٹکڑی پھُل ہو کر رہ جاتی!
ممی کی پرابلم تو ایک ہی تھی نا، ڈیڈی.. وہ بھی صرف بجٹ کے حوالے سے.. بجٹ چلتا رہے، ہنگامی خرچے پورے ہوتے رہیں… رہا میاں بیوی کا حوالہ، وہ تو شروع شروع میں زوروں پر ہوتا ہے… شروع شروع میں میاں کڑاہی کے چنے کی طرح تڑ تڑ کرتا ہے!
جوں جوں عمر رسیدہ ہوتا جاتا توں توں مدھم پڑتا جاتا ہے… بیوی ابھرتی جاتی ہے.. ادھیڑ عمر میں دو چار سخت مقام آتے ہیں.. جب میاں بیوی کی توجہ گھر سے باہر یہاں وہاں بھٹکتی ہے…. ٹوٹتی ہے، پھر لگتی ہے.. اگر بیوی اسے اہمیت نہ دے تو کشتی ڈانوڈول نہیں ہوتی… مہذب گھروں میں خالی میاں کی نہیں، بیوی کی توجہ بھی بھٹکتی ہے… اس لیے گلے شکوے کی گنجائش نہیں رہتی… ڈولنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا…!
ممی یوں بھاگی بھاگی ڈیڈی کے پاس آئی جیسے فرمانبرداری کی ماری ہوئی ہو.. ‘ساری ڈارلنگ’ وہ بولی…. ایک تو یہ سب کمیٹیاں جینے نہیں دیتیں… ویلفیئر تو جان کا دشمن ہوگیا ہے جی میں آتا ہے کہ…. استعفیٰ دے دوں… کیوں ڈارلنگ دے دوں؟
ڈیڈی کو اچھی طرح پتا ہے کہ ویلفیئر کے پیڈسٹل پر بیگم کا بت کھڑا ہے.. استعفیٰ کون دیتا ہے…. پھر بھی بیگم کا یہ کہنا کتنا خوش کُن ہے ” بلکل نہ دینا ” وہ جواب دیتا… میں نے تو صرف اس لئے بلایا ہے کہ یاد دہانی کرادوں… آج رات بیگم سہیل آئیں گی…!
اوہ! بیگم سہیل……. وہ چخ چخ چمگادڑ… نہ بات کرنے کا سلیقہ نہ اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ…!
میرے میاں کو تو بھرمائے بیٹھی ہے…. ” ہائے! ” بیگم سہیل” ممی نے شہد کی پھوار چلائی…. میں تو کب سے ڈنر پر بلانا چاہ رہی ہوں…. آج آئے گی…. ویری نائس آف ہر…. اچھا کیا جو مجھے بتا دیا…. ڈونٹ وری ڈارلنگ……!عمیرا سنتی ہے _ہئے! اتنا جھوٹ! ان دونوں نے آپس میں سچی بات بھی کیے _ دونوں ہی جھوٹے ہیں _ دونوں کو پتا ہے منہ زبانی کے گلاب جامن تلتے ہیں _
” بائی ڈارلنگ _ میں شام سے پہلے آجاؤں گی _ خدا حافظ _”
عمیرا اطمینان کا سانس لیتی ہے _ ، چلو، اچھا ہوا، اک رکاوٹ تو دور ہوئی _ شام تک سینو، نوی اور میں _ ڈیڈی تو منتظر بیٹھے ہیں کہ کب ممی جائیں اور وہ سہیل کو فون کریں _ بس فون کریں گے اور ان کے ہاں جا بیٹھیں گے _ اس کے میاں سے سے شطرنج کی بازی رہے گی _
بازی تو بس دکھاوا ہے _ وہ اردگرد گھومے گی _ یہ کھائیے _ یہ آزمائیے _ میری طرف دیکھئے _
” بیٹے عمران ” ڈیڈی نے آواز دی _
عمران چونکا، دی اولڈ میں از اپ _پتا نہیں کیا کہے _ کہاں بھیجے _ مجھ سے کوئی واسطہ نہیں _ اپنے کام سے واسطہ رکھتا ہے _ بیٹا کہاں _ منہ زبانی کا بیٹا ہوں _
“سنتا نہیں، ڈیڈی بلا رہے ہیں ” آنسہ زیرلب بولی _
” بڑی چہیتی آئی ہے، ڈیڈی کی” وہ غرایا _
” بیٹے، عمران ” ڈیڈی نے پھر آواز دی _
” آ رہا ہوں ” ڈیڈی _ _ _ عمران اطمینان سے چلتا ہوا یوں پاس آ رکا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو ” جی ڈیڈی؟ ”
” فارغ ہو؟”
“جی بلکل “
” ذرا سہیل ساب کی طرف جانا ”
اولڈ میں بلکل ہی لٹو ہو رہا ہے _ ” جی ڈیڈی ”
” أن کا فون خراب ہے _ کہنا امی آج شام کو آپ کا انتظار کریں گی _”
‘ ‘جی ،اچھا _” ممی انتظار کریں گی _ ممی…. ہوں…….. ابھی جاتا ہوں جناب _
عمران نے موٹر سائیکل سٹارٹ کیا _ غصے سے ایکسیلیٹر کا گلا گھونٹا، اور زور سے، اورزور سے _ گھر کی دیواریں لڑکھڑائیں _ اور پھر غاؤں غاؤں!
عمران کے جانے کے بعد ڈیڈی راکنگ چئیر سے اٹھے _ دو ایک منٹ باتھ روم سیٹی بجاتے رہے _ پھر تیار ہوکر باہر نکل گئے!
ڈیڈی کے جانے کے بعد عمیرا نے فون کیا _ “ہیلو کون بول رہا ہے؟….. اوہ یو _ گڈ….. کم اینڈ گٹ می_ ”
فون بند کرنے کے بعد وہ پورٹیکو میں ٹپ ٹپ ٹہلنے لگی!
عمیرا کے جانے کے بعد گھر شانت ہوگیا _ جیسے کوئی مسجد براق سی سفید چادر اوڑے درختوں کی اوٹ میں پُرسکون بیٹھی ہو!
ایسے لگتا تھا وہ گھر نروان حاصل کرنے کے لیے بنایا گیا ہو!
اندر ایک بھکشنی بیٹھی سوچ رہی تھی کی نروان حاصل کرنے کیلئے میں کونسا رانگ نمبر گھماؤں؟
اردو ٹیکسٹ:-ارم چوہدری