Samay Ka Bandhan

عینی اور عفریت–سمے کا بندھن

عینی اور عفریت

زندگی کا عظیم ترین واقعہ ، چھوٹے چھوٹے معمولی واقعات کی شکل میں سامنے آتا ہے ۔ ایک چھوٹا سا چشمہ پھوٹتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شوریدہ سر دریا بن کر آپ کی شخصیت کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے ۔

وہ اچانک رُونما ہوتا ہے ، ایسے وقت جبکہ نہ خواہش ہوتی ہے نہ آرزو ، نہ اُمید نہ توقع ۔ آپ دروازے بند کر چکے ہوتے ہیں ۔ اب یہاں کوئ نہیں ، کوئ نہیں آۓ گا۔ جب آپ بھر پور زندگی بِتا چکے ہوتے ہیں ، خود سے مطمئن، تکمیل کے احساس سے سرشار۔

اس وقت وہ اچانک رُونما ہوتا ہے اور آپ کی شخصیت کے اس شاندار ایوان کو جسے آپ نے سال ہا سال ایک ایک اینٹ رکھ کر تعمیر کیا تھا ، ایک جھٹکے میں مسمار کردیتا ہے۔

اور پھر جو آپ دیکھتے ہیں تو ۔۔۔ کیا دیکھتے ہیں کہ آپ ملبے کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ کچھ بھی نہیں ۔

میں نے بڑی بھر پور زندگی گزاری تھی ۔ جوانی میں جزبات کی ایک بِھیڑ لگاۓ رکھی ۔ میلہ لگاۓ رکھا۔

پٹاخے چھوڑے ، پھلجھڑیاں چلائیں ، ہولیاں کھیلیں ، رنگ پچکاریاں چلائیں ، ابیر گلال کے تھاک بھرے۔

میں جزباتی تھا ، شدت پسند تھا۔ جزبات اور شدت میری دانست میں خلوص کے مظہر تھے۔ میرا رُخ مثبت تھا ، خلوص بھرا، ہمدردی بھرا ، حقارت اور نفرت سے پاک ۔ میں کہہ دینے والا تھا۔ گونگے اور ٹھنڈے خون والے مجھے پسند نہ تھے۔

میں نے علم حاصل کیا تھا۔ نفسیات میں مجھے دسترس تھی۔ تحلیلِ نفسی میں خاصی اہلیت تھی ۔ دوست مانتے تھے۔ اچھا جانتے تھے۔ قدر کرتے تھے۔

اپنے ماضی پر مجھے کوئ پشیمانی نہ تھی ۔ نہ احساسِ گناہ ، نہ کمتری۔

میں نے عشق کیے، محبتیں کیں ، افیئرز نہیں ۔ یارانے نہیں ۔ توجُّہ کے بِنا رہا ۔ ذِلتیں اور رسوائیاں جھیلیں ۔

فراق و وصال سبھی کچھ ۔ جبھی تو اب خود سے مطمئن تھا۔ احساسِ تکمیل سے سرشار۔

اگر کوئ مجھ سے پوچھے :بول کیا مانگتا ہے؟ جو مانگے گا ملے گا۔ تو یقیناً میں سوچ میں پڑجاؤں گا۔ کیا مانگوں ؟

میں مانگ کی دنیا سے دور نکل آیا ہوں ۔ سکون اور اطمینان کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں ۔

شور شرابا پیچھے رہ گیا ہے، بہت پیچھے ۔

جس راستے پر میں گامزن ہوں ، وہ اطمینان سے لبریز ہے۔

سڑک خاموش ہے ۔

راستہ ہموار ہے ، نہ اوچان نہ نچان۔ سیدھا ، صاف ۔ دونوں جانب پیڑ اُگے ہوۓ ہیں  سرسبز نہیں ، پیلے  پیلے ۔ اونچے لمبے نہیں ، بیٹھے بیٹھے ، جھکے جھکے ، گرد آلود۔

پّتے مسلسل جھڑرہے ہیں ۔ کھڑ لھڑ کر رہے ہیں ۔

شام گہری ہوتی جارہی ہے۔

دُور دُور لگے کھمبوں پر بتیاں ٹمٹمارہی ہیں۔

ان کی زرد ٹِم ٹِم زمین تک نہیں پہنچ پاتی۔

شام کا گھس پھسہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

سڑک پر اکّا دکّا راہ گیر چل رہے ہیں۔

چُپ چاپ ، تھکے ہارے ، گرد سے اٹےہوۓ۔

ایک دوسرے سے دُور دُور ۔ اکیلے اکیلے۔ تنہا تنہا۔

منظر پرسکون کا ایک خیمہ تنا ہوا ہے۔ بے چینی کی مدہانی مدّت سے زنگ آلود ہوچکی ہے۔میرے دل میں کوئ مدّو جزر نہیں ۔ ذہن سوچ بچار کی گھاٹیوں سے نکل چکا ہے۔ کیوں ، کیسے ، کِس لیے کے بِھڑ بُھن بُھن کرنا بھول چکے ہیں۔

میرے سامنے آسمان پر چاند ٹنگا ہوا ہے۔ چاندنی والا چاند نہیں ۔ چاندنی تو چھیڑ دیتی ہے۔ایک بڑا سا مدھم مدھم چاند ۔ جیسے تانبے کا ایک تھال لٹک رہا ہو۔میں چلے جارہا ہوں ، چلے جارہا ہوں۔

دفعتہً پاؤں کی چاپ سنائ دیتی ہے۔ قریب اور قریب ۔ یہ کون ہےجو میرے ساتھ ساتھ چل رہا ہے؟

میں مُڑ کر دیکھتا ہوں : کون ہو تُم ؟

وہ سر اٹھاتی ہے۔ مجھے دیکھ کر ٹھٹھکتی ہے ۔ رُکتی ہے۔ پھر سرجھکا لیتی ہے۔جواب نہیں دیتی۔

اس کے جسم میں چمک ہے، تازگی ہے، شگفتگی ہے۔ لیکن منہ لٹکا ہوا ہے ۔ خدو خال پر بے تکلّفی کی دھول جمی ہوئ ہے۔ تھکا ہارا مردہ چہرہ۔ گردن جھکی ہوئ۔ نگاہیں اُکتائ ہوئ، جیسے بہت کچھ دیکھا ہو، دیکھ دیکھ کر تھک گئ ہو ،جھک گئ ہو۔ نہ دیکھنے کی چاہ نہ دکھانے کا شوق۔

” تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا؟ کون ہو تم ؟”

” میں بھی ہوں ” وہ سر اٹھاۓ بغیر جواب دیتی ہے۔

جواب میں تلخی ہے ۔ لیکن آواز مدھم ، پھٹی پھٹی ، تھکی تھکی ۔ اس میں چمک نہیں ۔ تان نہیں ۔ لے نہیں ۔ لوچ نہیں ۔ جیسے ریوڑی بھیگ گئ ہو۔ کڑاکا نہ رہا ہو۔

” لیکن یہ سڑک تو تمہارے لیے نہیں ہے۔ تمہیں تو شاہراہ پر چلنا چاہیے، جہاں رونق ہے ، زندگی ہے۔”

” وہیں سے آئ ہوں ” وہ جواب دیتی ہے۔

” لیکن کیوں ؟” نا گہاں میرے منہ سے نکل جاتا ہے۔

کیوں،  کیسے،  کس لیے کے بھڑ بھن بھن کرنا بھول چکے ہیں..

میرے سامنے آسمان پر چاند ٹنگا ہے..  چاندنی والا چاند نہیں..  چاندنی تو چھیڑ دیتی ہے.  ایک بڑا سا مدھم مدھم چاند..  جیسے تانبے کا ایک تھال لٹک رہا ہو.  میں چلے جا رہا ہوں،  چلے جا رہا ہوں…

دفعتاً پاؤں کی چاپ سنائی دیتی ہے..  قریب اور قریب..  یہ کون ہے جو میرے ساتھ ساتھ چل رہا ہے؟؟؟

میں مڑ کر دیکھتا ہوں : کون ہو تم؟؟ “

وہ سر اٹھاتی ہے..  مجھے دیکھ کر ٹھٹھکتی ہے..  رکتی ہے..  پھر سر جھکا لیتی ہے..  جواب نہیں دیتی..

اس کے جسم میں چمک ہے،  تازگی ہے،  شگفتگی ہے،  لیکن منہ لٹکا ہوا ہے..  خدوخال  پر بے تکلفی کی دھول جمی ہے.  تھکا ہارا مردہ چہرہ..  گردن جھکی ہوئی..  نگاہیں اکتائی ہوئی،  جیسے بہت کچھ دیکھا ہو،  دیکھ دیکھ کر تھک گئی ہوں.  نہ دیکھنے کی چاہ نہ دکھانے کا شوق..

تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا؟  کون ہو تم؟؟

“میں بھی ہوں” وہ سر اٹھائے بغیر جواب دیتی ہے..

جوب میں تلخی ہے،  لیکن آواز مدھم، پھٹی پھٹی،  تھکی تھکی.  اس میں چمک نہیں.  تان نہیں.  لے نہین.  لوچ نہیں جیسے ریوری بگیگ گئی ہو..  کڑاکا نہ رہا ہو.

لیکن یہ سڑک تو تمہارے لیے نہیں ہے..  تمہیں تو شاہراہ پر چلنا چاہیے،  جہاں رونق ہے،  زندگی ہے..

وہیں سے آئ ہوں  وہ جواب دیتی ہے

لیکن کیوں؟ نا گاہ میرے منہ سے نکل جاتا ہے.

وہ سر اٹھاتی ہے،  تن کر کھڑی ہو جاتی ہے، میری مرضی ..

میں چپ ہو جاتا ہوں..  چلنے لگتا ہوں..  جیسے کوئی بات ہی نہ ہو..  لیکن دل میں کچھ کچھ

ہونے لگتا ہے.  پتا نہیں غصہ ہے یا کیا ہے..

پاؤں کی چاپ پھر قریب آ جاتی ہے اور قریب..

تم میرے ساتھ ساتھ کیوں چل رہی ہو؟؟؟  ان جانے میں میرے منہ سے نکل جاتا ہے.

ساتھ نہیں..  میں چل رہی ہوں.  وہ با آواز بلند کہتی ہے.  پھر زیر لبی سنائی دیتی ہے..

کوئی کسی کے ساتھ نہیں چلتا..  اس کی آواز میں حسرت نہیں،  آرزو  نہیں،  بے تعلقی ہی بے تعلقی ہے..

میں رک جاتا ہوں دیکھو تو،  پاؤں دھیرے دھرو.  ہم ساتھ ساتھ نہ رہیں..

ہاں وہ کہتی ہے “دھیرے دھرے تھے، لیکن

لیکن کیا؟؟  میں پوچھتا ہوں.

پھر تم بھی پاؤں دھیرے دھرنے لگے،  رک گئے

میں رک گیا تھا؟؟  مجھے غصہ آنے لگا..

ہاں تم وہ جواب دیتی ہے.  اس کی آواز برف کی سل کی طرح گرتی ہے.

تمہیں اپنے متعلق خوش فہمی ہے کیا؟؟

تمہیں ہے مجھے نہیں..  میں خوش فہمیوں کی دنیا سے نکل آئی ہوں..

میں رک جاتا ہوں میں تمہارے ساتھ نہیں چلوں گا..

تھینک یو وہ جواب دیتی ہو اور تیز چلنے لگتی ہے.  تھینک یو؟؟ کس بات پر؟  میں چلاتا ہوں.

میں تمہارے ساتھ چلنا پسند کرتی ہوں.  وہ پیچھے مڑے بغیر جواب دیتی ہو..

غصے سے میری کنپٹیاں بجنے لگتی ہیں.  میں اس کی پیچھے بھاگتا ہوں ” میرے ساتھ چلنے میں کیا ہے؟ بولو..”

تم ساتھی نہیں ہو.

لیکن کیوں؟  میں اسے کندھوں سے پکڑ لیتا ہوں…

تم اپنی میں سے بھرے ہوئے ہو..  اتنے بھرے ہوئے ہو کہ دوسرے کی گنجائش نہیں… تم توجہ دے نہیں سکتے خود توجہ طلب ہو.

تم مجھے جانتی ہو کیا؟؟

جانتی نہیں،  تمہارے ماتھے پر لکھا ہوا ہے وہ جواب دیتی ہے…

تم اسے پڑھ سکتی ہو کیا میں طنزاً پوچھتا ہوں

ہاں وہ سر اٹھا کر جواب دیتی ہو میں عورت جو ہوں

مجھے یوں لگتا ہے جیسے کای نے سن کر دیا ہو میں اپنے ہاتھ اس کے کندھے اے اٹھا لیتا ہوں

میری گردن لٹک جاتی ہے.

مجھے دیکھ کر اس کا رویہ بدل جاتا ہے.

کہتی ہے میں تمہیں دکھانا نہیں چاہتی..  دل میلا نہ کرو..  اچ اننے کی ہمت پیدا کرو

اس نے پہلی بار نگاہیں اٹھائی ہیں..  مجھ پر بھرپور نظر ڈالی ہے اور مسکرا دی ہے

دفعتاً نہ جانے کیا ہو گیا ہے کچھ ہو گیا ہے.  رنگ پچکاری چل گئی ہے.  پیر تن گئے ہیں.  پتے ہرے ہو گئے ہیں.  بتیاں روشن ہو گئ ہیں.

چاند کی چاندنی نے سارے منظر کو بھگو دیا ہے

میرے ارد گرد ایک بھیڑ لگ گئی ہے

وہ چل پڑتی ہو.

رک جاو رک جاؤ میں اس کے پیچھے پیچھے چل پڑتا ہوں..

پیچھے پیچھے چلنے کا یہ میرا پہلا واقعہ نہیں تھا..  زندگی میں بارہا پیچھے پیچھے  چلا ہوں..  مجھ میں یہ صلاحیت نہیں کہ کسی کو پیچھے لگا سکوں.  دراصل میں ازلی طور پر پیچھے چلنے والوں میں سے ہوں…

میرا عشق پیچھے چلنا ہے

جو میرے پیچھے چلتی ہے وہ دل سے اتر جاتی ہے..

جب تک میں پیچھے چلتا ہوں جنون قائم رہتا ہے

جب ساتھ ساتھ چلنے کا موقع آتا ہے تو قدم اکھڑ جاتے ہیں..

سالہا سال پہلے یہی بات مجھے اماں نے بتائ تھی..  لیکن اماں کی بات میں نے کبھی نہ سنی تھی.  اماں کی بات پر میں کیسے سوچتا…  میں تو بات بات  ہر اماں سے کہا کرتا تھا..  اماں تم نہیں سمجھتی.  جو سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اس کی بات پر سوچنا کیسا..

اماں کی بات کو میں نے کبھی نہ جانا تھا..  اور جانا ہی نہ تھا تو ماننا کیسا.

دوپہر کا وقت تھا بدلتے موام. کی ہوا چل رہی تھی..  گرتے پتے کھڑ کھڑ کر رہے تھے..  اداسی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے

اس چھوٹے سے گھر میں کم تین رہتے تھے..

ننھا منیر دیوار سے لگا،  بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا. میں ٹین کی کرسی پر بیٹھا دونوں ہاتھ سے سر کو تھامے،  فضا ک گھور رہا تھا.  بوڑھی اماں دیوار سے ٹیگ لگائےآلو چھیل رہی تھی

اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے.

دیر تک خاموشی چھائی رہی.

دفعتاً اماں بولی ایسے کیسے چلے گا بیٹے؟؟؟

میں نے سر اٹھایا ایسے کیسے کیا اماں؟؟

کب تک وہ دیوار سے لگے کھڑا رہے گا…

اس نے منیر کی طرف اشارہ کیا..  تو دونوں ہاتھوں سے سر کو تھامے زمین کو گھورتا رہے گا اور میں وہ رک گئی…  مجھ سے اب یہ کچھ نہیں ہوتا،  بیٹے..

کوئی گھر والی لے آنا..

کیسے لاؤں..  کوئی ملے تو لاؤں.  ڈھونڈ رہا ہوں..

نہ نہ نہ..  وہ بولی اس کا چہرہ یوں پھوٹ گیاجیسے شیشہ تڑخ جاتا ہے..  آواز میں منت بھری ٹوٹ جھلکی  نہ بیٹے نہ..  اللہ کا واسطہ ڈھونڈ میں نہ پڑنا.

کیوں اماں؟  میں نے پوچھا

کوئ پسند آ گئی تو تو اا کے پیچھے بھاگے گا…  وہ رک گئی..  انگلی سے آنسو پونچھا پہلے بھی یہی ہوا تھا…  سولہ سال تو اس کے پیچھے بھاگتا رہا تھا…  پھر جب وہ مل گئی تو تو ساتھ ساتھ نہ چل سکا.. وہ رک گئی..

جو پیچھے بھاگنے والے ہوتے ہیں بیٹا وہ ڈرتے ہیں کہ مل نہ جائے.  پیچھے بھاگنے کی لذت ختم نہ ہو جائے..  وہ چپ ہو گئ.

میں سوچنے لگا..  بات سامنے دھری تھی.  پر میرے پلے نہ پڑی.

اب میں نے جانا ہے کہ سامنے دھری نہیں دکھتی..  جو ڈھونڈ کا رسیا ہو اسے سامنے دھری کیسے دکھے..

دیر تک ہم چپ چاپ بیٹھے رہے..

پھر اماں اٹھی میرے پاس آئی ہاتھ میرے سرچپر رکھ دیا تھپکا.  بولی بیٹے تو سب  کچھ جانتا ہے  پر خود کو نہیں جانتا.  میں تجھے جانتی ہوں مجھے پتا ہے..

تو مجھے کیسے جانتی ہو اماں؟؟

تو اپنے ابا پر گیا ہے نا..  ہو بہو وہی ہے..  ہو بہو.  اور میں نے ساری زندگی اس کے ساتھ گزاری ہے.  وہ بھی یہی سمجھتا تھا. کہ پیچھا بھاگنا محبت ہے.  بس وہ بھاگتا ہے رہا ..  زندگی بھر..

وہ خاموش ہو گئی.  دجر تک کھڑی میرے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی اور میں سر جھکائے بیٹھا رہا.

اماں میں نے خاموشی توڑی

محبت کیا ہے؟؟

کچھ دیر کے لیے وہ خاموش رہی پھر بولی بیٹے محبت دوڑ بھاگ نہیں ہوتی.  طوفان نہیں ہوتی،  سکون ہوتی ہے.  دریا نہیں ہوتی جھیل ہوتی ہے دوپہر نہیں ہوتی بھورسمے ہوتی ہے.  آگ نہیں ہوتی اجالا ہوتی ہے.  اب میں تجھے کیا بتاؤں  کہ کیا ہوتی ہے.  وہ بتانے کی چیز نہیں بیتنے کی چیز ہے..  سمجھنے کک چیز ہے جاننے کی چیز ہے

اماں کی بات میرا رستہ روک لیتی تھی..  میں رک جاتا تھا..  لیکن تڑپ بھری نگاہوں سے اسے دیکھتا رہتا تھا..  دیکھتا رہتا تھا..   اس امید پر کہ شاید وہ مڑ کر دیکھے..  پھر مسکرائے.  پھر پھلجھڑی چل جائے پھر گن کہہ دیا جائے…

لیکن وہ چلے جاتی ہے.  یوں چلے جاتی ہے جیسے کسی نے اس کا رستہ کاٹا ہی نہ ہو.. جیسے کسی کو پیچھے چھوڑ کر نہ جا رہی ہو

.  اچی بات یہ ہے کہ اگرچہ میرے پاؤں رک گئے  ہیں لیکن میں نہیں رکا ہوں..  میں اس کے پیچھے پیچھے چلے جا رہا ہوں..  چلے جا رہا ہوں..

دب گزر جاتے ہیں..  ہفتے گزر جاتے ہیں لیکن میں چل رہا ہوں چلے جا رہا ہوں اس کے پیچھے پیچھے چلے جا رہا ہوں..

پرا نہیں میں اس کے پیچھے کیوں چلے جا رہا ہوں.

کوئی  خواہش نہیں  آرزو نہیں جو پیچھے چلنے ہر اکسائے..  حصول کی خواہش نہیں..

مطلب نہیں مانگ نہیں..

اسے دینے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں..

پوجا کے پھول سوکھ کے کانٹا بن چکے ہیں..

آرتی کی تھال خالی پڑی ہے..

بھینٹ چڑھانے کے لیے کچھ بھی تو نہیں ہے. پھر بھی چلے جا رہا ہوں.

نہ مقصد نہ منزل

چلتے چلتے ایک دن وہ پھر نظر آ جاتی ہے..

مجھے یقین نہیں آتا آنکھیں ملتا ہوں..

نظر تو وہ مجھے مسلسل آتی رہتی ہے..  آتی رہتی ہے.  وی مسکراہٹ وہ رنگ پچکاری  جیسے کسی نے کن کہہ دیا ہو.  نہیں نہیں..  فریب نگاہ ہے..  واقعی وہ پارک کے ایک کونے میں.  درخت کے مقابل زمیں پر اکڑوں بیٹھی ہے..  ہاتھ میں برش ہے..  پہلو میں بہت سے رنگ بکھرے ہوئے ہیں.  رو برو ایک بڑی سی کینوس فریم پر لگی  ہوئی درخت کے سہارے کھڑی ہے

میں دبے پاؤں اس کے پیچھے جا کھڑا ہوتا ہوں.  ارے یہ کینوس ہر کیا بنا ہوا ہے..

 

اس قدر خوفناک چہرہ دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں..  کوئی عفریت ہے ..  یہ کیا بنا رہی ہے..  میں دل ہی دل میں سوچتا ہوں..

 

اردو ٹیکسٹ : آمنہ حق…

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button