ممتاز مفتی کی کتاب تلاش، تبصرہ شہزاد مغل
میرا ممتاز مُفتی صاحب سے پہلا تعارف اُن کی آخری کتاب”تلاش“پڑھنے سے ہوا۔۔۔۔۔تلاش کتاب ایک ایسی کتاب محسوس ہوی جس کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ خُدا جو مجھ سے ناجانے کتنا دور سات آسمانوں کے پیچھے چُھپا بیٹھا تھا آچانک سے آکر میرے ساتھ بیٹھ گیا۔۔۔۔مجھ سے باتیں کرنے لگا۔۔۔۔یہ کتاب پڑھ کر مجھے اپنی مانگی ایک دعا قبول ہونے کا احساس ہوا جو میں نے یونہی سرِ راہ کہا تھا کہ”اے خدا مجھے اپنی اصل پہچان عطا کر“۔۔۔۔۔۔
اس کتاب سے مجھے یہ واضع پیغام ملا کہ ”اگر کسی کو اپنے رنگ میں رنگنا ہو تو پہلے اس بندے کا رنگ اپنے اوپر چڑھانا پڑتا ہے جسے تم اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہو“۔جیسا کہ مفتی صاحب نے لکھا کہ”ہمارے علماۓ کرام کو عام آدمی جیسا بننا ہو گا پھر وہ ان کی بات سُنے گا اور عمل کرے گا“۔
میرے لیے تلاش فقط ایک کتاب نہیں بلکہ خدا کا دوسرا نام(محبت)کو مجھ واضع کرنے کا زریعہ ہے۔۔۔۔قرآن پاک کا سپرٹ سمجھنے کی سیڑھی ہے جس کا سہارا لے کر میں نے قرآن پاک کو سمجھنا شروع کیا تو زہن کی کھڑکی کُھلی کہ انسان کو اشرف المخلوقات کیوں کہا گیا ہے۔۔۔۔
جب میں نے اس کتاب کی بتائ ہوی باتوں کو اپنایا تو مجھے اپنا آپ خدا کے سب سے زیادہ قریب محسوس ہوا۔جیسا کہ غرور انسانی فطرت کا حصہ ہے تو مجھے غرور کے سانپ نے ڈسنا شروع کر دیا اور اس سانپ کا ہر وار مجھ میں عجیب سرشاری بھر دیتا تھا۔۔۔لیکن جب تلاش کا سفر آگے بڑھا تو ایک اور جھٹکا میرا منتظر تھا کہ ”خدا تک تو ہر راستہ پہنچتا تھا“اور میں نادان سمجھتا تھا کہ خدا تک صرف وہی راستہ پہچتا ہے جس پر میں محو سفر ہوں۔کیونکہ مفتی صاحب نے واضع لکھا ہے کہ”ڈر بھی ایک تعلق ہے اور پیار بھی ایک تعلق ہے“۔۔۔۔
پھر مجھے احساس ہوا کہ خدا تو رب العالمین ہے نا کہ رب المسلمین!۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ اگر وہ رب المسلمین ہوتا تو صرف مسلمانوں کی طرف داری کرتا اور دوسرے لوگوں کو بھوکا مار دیتا۔۔۔لیکن وہ تو سب کو دیتا ہے۔۔۔۔
آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ” اس کتاب نے مجھے وہ راستہ دکھایا جس پر سفر کر کے میں خدا کے قریب ہوا اور اسے بہت رحیم پایا“
ہم سب کو خود بھی یہ کتاب پڑھنی چاہیے اور دوستوں کو بھی مشورہ دینا چاہیے پڑھنے کا۔