کتابوں پر تبصرے

راکھ… تبصرہ:احمد بلال

مستنصر حسین تارڑ اردو ادب کے عصر حاضر کے نامور ادیبوں میں سے ایک ہیں۔۔ جنھوں نے اردو ادب کیلئے بہت کام کیا اور ان کی کئی ایک اصناف ہیں جن ناول، ڈرامہ، سفرنامے اور مزاح نگاری شامل ہے۔۔۔ بہاؤ، راکھش قربتِ مرگ میں محبت اور خس و خاشاک زمانے جیسے شاہکار ناول انہیں کی تصانیف ہیں
••••
” تمام جنگوں کا end result کیا ہؤا ؟ ۔۔ نتھنگ۔۔۔ نتھنگ۔۔۔ ڈسٹ ان ٹو ڈسٹ، خاک در خاک اور راکھ راکھ میں۔۔۔!!
••••
کوئی ادیب معاشرتی زبوں حالی تہذیب و تمدن کے ارتقاء اور زوال کو یکساں طور پر کس طرح سچائی کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ اسکی راکھ میں دبی چنگاری اسی تہذیبی ڈھانچے کی توڑ پھوڑ کو دانشورانہ فکری زاوئیے عطا کردے کہ قاری اپنی تہذیب کے بدلتے ہوئے بہاؤ کو محسوس کرتے ہوئے اس میں بہتا چلا جائے اور کہیں کہیں وہی انسان اپنے معاشرتی اور سیاسی بد عملی کے ڈھانچے کی اس جلستی ہوئی راکھ کو اسی بہاؤ کے حوالے کردے جو سفاک حقیقتوں کا پردہ چاک کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔۔۔

ایسی ہی کئی درِپردہ حقیقتیں مستنصر حسین تارڑ کے ناول راکھ میں پوشیدہ ہیں جس کی چنگاری نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے کر اسے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں منقسم کردیا کیونکہ کبھی کبھی راکھ میں دبی چنگاری نسلوں اور تہذیبوں کو اپنی لپیٹ میں لیکر سب کچھ بھسم کردیتی ہے کچھ یہی حال تارڑ نے اپنے ناول راکھ میں بیان کیا ہے تارڑ کے قلم کا طلسم ان حقیقتوں کی اس طرح چشم کشائی کرتا ہے کہ تقسیم کے وقت کی راکھ میں دبی چنگاری بنگلہ دیش کی صورت ابھر کر سامنے آتی ہے۔۔۔

تارڑ نے کئی سفاک حقیقتوں اور مکروہ چہروں کو پیش کیا ہے جو سیاست کے نام پر دھبہ تھے وہ سازشیں جو سیاسی اور تمدنی اور تہذیبی تغیرات کا شاخسانہ تھی کو بے نقاب کیا ہے جو قیام پاکستان سے ۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ کی سیاست کا حصہ جنگ کی صورت میں نمودار ہوئی اور اپنے ہی ہاتھوں اپنے جغرافیائی لسانی اور تہذیبی عناصر کے چہروں پر راکھ کی تہہ جمانے کی کوشش میں کامیاب ہوگئیں تھی ناول راکھ بھی اسی ارتقا جو خواب شناخت حب وطن کی چاہت فطرت حسن کا شاہکار، مذہبی عقیدت اور جنس پرستی کی حقیقت کو تہذیب و تمدنی عناصر کو اپنے اندر بسائے ہوئے تھے، ایسے مکروہ سیاسی چہروں کی نقاب کشائی کرتا ہے وہیں نا اتفاقی اور باہمی چپقلش کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔

راکھ ایک ایسا سانحہ ہے جس کے پیش رو اپنے ہی تھے جو سیاسی چالوں کے پٹے ہوئے مہروں کی طرح اپنی سرزمین کو توڑنے میں کامیاب رہے۔۔۔ اور ۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ کی جنگ کا باعث بنے جنھوں نے سقوط ڈھاکہ جیسے واقعات کو جنم دیا زوالفقار بھٹو کی پھانسی اور ضیا الحق کا مارشل لاء اسی راکھ کی پیداوار ہیں۔۔ اسی راکھ کے خمیر سے بے ضمیر سیاست پروان چڑھی جس نے گروہی لسانی تعصب پسندی کو فروغ دیا وہیں جمہوری کلچر کی پامالی ۱۹۶۵ اور۱۹۷۱ پاک بھارت جنگوں کے خطرناک نتائج نے تقسیم ، فساد ، لوٹ مار تشدد انسانی خون کی ارزانی سے مشرقی پاکستان کی سسکتی بلکتی ہوئی تاریخ رقم کی۔۔۔۔

اس ناول میں یاسیت اور قنوطیت کو اس عمدگی سے بیان کیا گیا ہے کہ قاری اسی کی تپش سے خود کو جھلستا ہوا محسوس کرتا ہے ناول میں کہانی واقعات کے بجائے کرداروں کے توسط سے آگے بڑھتی ہے ناول کے کرداروں میں مشاہد اسکی بیوی مردان، زاہد کالیا، ڈاکٹر ارشد فاطمہ، برگیتا اور ڈی سی حسین کے کرداروں کے گرد گھومتی ہے یہ سب کردار مصنف کے ذہنی اختراع کی پیداوار ہیں جو مختلف حقیقتوں کو بیان کرتے نظر آتے ہیں جبکہ مصنف نے کچھ حقیقی چہروں کو بھی اس ناول کے کرداروں میں ضم کرکے اسی سچائی اور کڑواہٹ کے ساتھ پیش کیا ہے جیسے وہ اس سماجی اور تہذیبی راکھ کا حصہ تھے جیسے منٹو ، مولانا صلاح الدین، خورشید شاہ، ملک معراج خالد، جنرل یحیٰی ، زوالفقار علی بھٹو ، اے کے نیازی، ٹکا خان، بلیک بیوٹی اور ضیاءالحق نمایاں ہیں۔۔۔ جنکی سیاسی اور سماجی چالوں کی چشم کشائی راکھ میں کی گئ ہے۔۔۔

ناول کے کرداروں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں میں گھرے ہوئے ہیں جو بے حس ہیں ناول کے مرکزی کردار مشاہد کی زندگی کو مصنف نے اس طرح بیان کیا ہے کہ جس نے زندگی کو جیا نہیں بلکہ بسر کیا ہے وہ حالات و واقعات کے ایسے سانحات سے گزرا ہے جس نے اسے ایک مخصوص شناخت عطا کردی ہے وہ ناول کا ایسا کردار ہے جو دنیاوں کا باسی ہے وہ بیک وقت مایوسی اور فرائض سے بھری زندگی کا سفر طے کرتا ہے اسی تغیر کے ساتھ وہ کئی منازل طے کرتا ہے ایک شرمیلے لڑکے طالب علم اور ایسے انسان کا کردار جیسے انگلستان کی معاشرتی جنسی روش کے درمیان چھوڑ دیا جائے ناول میں اسکے علاوہ جابجا کردار بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں جن میں مشاہد کی بیوی، زاہد کالیا، ڈاکٹر ارشد اور فاطمہ نمایاں اور متحرک کردار ہیں جو جسمانی ،سیاسی اور زہنی دباؤ میں مقید ہوکر اپنے اپنے وجود میں جلستے ہوئے راکھ کا ڈھیر بنتے جارہے ہیں ساتھ نفسیاتی پیچیدیگیوں میں جکڑے یہ کردار وقت کی ستم ظریفی کا شکار ہوکر اپنے اپنے وجود کی صلیبیں اٹھائے ناسٹلجیا کا شکار نظر آتے ہیں۔۔۔ اور چاہ کر بھی اس کشمکش سے اپنا آپ چھڑا نہیں پاتے۔۔۔

ناول میں سقوط ڈھاکہ کے دوران ہونے والے سماجی اور لسانی استحصال اور معاشرتی بے راہ روی سیاسی اتار چڑھاؤ اور بے ایمانی کو ان کرداوں کے زریعے جاندار انداز میں پیش کیا گیا ہے۔۔ اس ناول کا ہر کردار اس تعفن زدہ معاشرے کا جیتا جاگتا کردار ہے جو سیاسی اور سماجی چالوں کا شکار ہے اور ایسی کال کوتھڑی میں مقید ہے جو بدبودار معاشرت کی عکاس ہیں۔۔۔ جہاں حق اور حقوق کے لئے آواز اٹھانا اور دوسروں کا استحصال کرنا کار ثواب سمجھا جاتا ہے۔۔۔

راکھ ایسی ہی آہنی دیواروں کو توڑتا ہوا سیاسی و جمہوری بنیادوں کو محض پاکستانی سماج تک محدود نہیں کرتا بلکہ اسکی وسعت آفاقی رویوں کی پردہ کشی کرتی ہوئی نظر آتی یے جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے ناول کا لہجہ ایسا کاٹ دار ہے جو مردہ ضمیروں کو بھی تکلیف دہ انداز میں جھنجوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس پر تارڑ کا بے باک لہجہ زندگی کے فلسفے کو اس انداز میں اجاگر کرتا ہے کہ کئی لوگوں کے مکروہ چہرے نمایاں نظر آتے ہیں جنھوں نے تہذیب و تمدن کی جڑوں کو کمزور کرنے کے لئے سازشوں اور جنگوں کا سہارا لیا اور پاکستان کو سقوط ڈھاکہ کی صورت نفرت اور تعصب کی بنیاد بناکر راکھ کا ڈھیر بنادیا اور اس راکھ کے ڈھیر میں چھپی کئی چنگاریاں آج بھی بھڑکنے کا تیار ہیں۔۔
••••••
ناول کے بارے تارڑ سر کا کہنا ہے کہ

”راکھ“ ایک ایسے المیے کے بارے میں تھا، جس نے پورے ملک کو متاثر کیا۔ جس نے مسلمانوں کی، پاکستانیوں کی تاریخ بدل ڈالی۔۔
••••
” راکھ ” میں کسی ایک کردار کو مکمل طور پر مرکزی حیثیت حاصل نہ ہوسکی اور کچھ نقاد اسے ناول کی سب سے بڑی خامی قرار دیتے ہیں۔۔ وہ درست بھی ہوسکتے ہیں لیکن میں نے ” راکھ ” میں پاکستان کے پہلے تیس پینتیس برسوں کا احاطہ کیا ہے۔۔ اس میں جتنے بھی کردار آتے ہیں وہ اپنے اپنے عہد کی معاشرتی اور سیاسی زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں اور یا تو وہ اس عہد میں رہ جاتے ہیں یا پھر آگے چلے جاتے ہیں۔۔ میں بڑی آسانی سے کسی ایک کردار کو زیادہ اہمیت دے کر اسے مرکزی کردار بنا سکتا تھا اور دوسرے کرداروں کی زندگی اس کے تابع بنا سکتا تھا لیکن یہ دوسرے کرداروں کے ساتھ زیادتی ہوتی کہ ” راکھ ” کے وسیع کینوس پر وہ اپنے اپنے مقام پر اہم اور مرکزی تھے۔۔ یہاں تک کہ زاہد کالیا کا بردار عزیز ” کتورا ” بھی ایک پلے کی حیثیت سے اہمیت کر جاتا ہے وہ ایک جنرل کو دیکھ کر ” وف وف ” کرتا ہے۔۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button