کتاب : تلاش
باب 10 : گلاب کا پھول
ٹرانسکرپشن : فبیحہ احمد
سامنے دھری
میری اماں کہا کرتی تھی ، پتر ! بات کو چھپاؤ نہیں ۔ چھپی ہوئی کو لوگ ڈھونڈ لیتے ہیں ۔ سامنے دھری کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا ۔ چھپانا مقصود ہو تو سامنے دھر دو۔
میں پوچھتا ، اماں ! تو نے یہ بات کیسے جانی؟ کہتی ، مجھے میری ماں نے سکھائی تھی۔ میری اماں نے مجھے یہ بات سنائی ۔ کہنے لگی یہ بات سنی سنائی نہیں ، ہڈ بیتی ہے۔
پرانی بات ہے۔ ان دنوں ہم شہر کے ایک مضاف میں رہتے تھے۔ دیہاتی قسم کا گھر تھا ۔ گھر میں تین جی تھے ۔ بابا تھے اماں تھی اور میں تھی ۔ بابا اور اماں دونوں بوڑھے تھے۔ میں ابھی کم سن تھی ۔ ہمارے ایک عزیز حج پر جانے لگے تو جاتے ہوئے زیورات کی ایک پوٹلی ہمیں دے گئے کہ اس کی حفاظت کرنا ۔ اس زمانے میں نا تو لوہے کے سیف ہوتے تھے نا بینکوں میں لاکر۔ جب رات پڑی تو اماں اور بابا سوچنے لگے کہ پوٹلی کہاں رکھیں۔ بابا نے کہا اسے لکڑی کے بڑے صندوق میں رکھ دو اور تالا لگا دو۔ اماں کہنے لگی نہ نہ ! خدانخواستہ اگر چور آگئے تو سب سے پہلے وہ لکڑی کا صندوق کھولیں گے۔
بابا کہنے لگے تو پھر کہاں رکھو گی اسے۔ اماں کہنے لگی تالے والی جگہ نا رکھوں گی، نا صندوق میں نا الماری میں۔ پھر اماں ساتھ والے کمرے میں گئی جہاں گائے بندھی رہتی تھی اورکونے میں اپلوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اس نے پوٹلی اپلوں کے ڈھیر تلے رکھ دی۔
اماں کی بات سچ ثابت ہوئی اتفاق سے ایسا ہوا کہ ہمارے ہاں واقعی چور آگئے۔ انہوں نے سارے صندوق کھولے الماری پر تالا لگا ہوا تھا اسے بھی توڑ دیا لیکن زیورات کی پوٹلی جوں کی توں اپلوں تلے پڑی رہی۔