کتاب : تلاش
باب 11 : پلاؤ کی دیگ
ٹرانسکرپشن : اقصیٰ حنیف
پاکستانی دیگ
میرے کئی ایک دوست کہتے ہیں، مفتی ! یہ کہانی تو نے خود گھڑی ہے۔ یہ تو پاکستان کی کہانی ہے۔ لوگ اس دیگ کو کھا رہے ہیں۔ وہ چلا جاتا ہے تو دوسرا گروپ آتا ہے۔ کھاتا ہے، وہ چلا جاتا ہے تو دوسرا گروپ آتا ہے۔ اس کے جیالے دیگ پر ٹوٹ پڑتے ہیں لیکن یہ دیگ ختم ہونے میں نہیں آتی۔ دیکھنے میں زبوں حالی کا دور دورہ ہے لیکن سڑکوں پر کاروں کی لائنیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ دکانوں میں مال کے انبار بڑھتے جا رہے ہیں۔ شاپنگ کا بخار چڑھتا جا رہا ہے۔ ہوٹلوں کے فنکشن بڑھتے جا رہے ہیں۔ خواتین کے چہرے گلال ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی بھور کالی آنکھوں سے کرنیں پھوٹتی ہیں۔ سٹیٹس کے درجات بڑھتے جا رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ دیگ مست نے چڑھائی تھی اور یہ خود رب جلیل نے چڑھائی ہے لیکن یہ دیگ کی بات تو خواہ مخواہ در آئی ہے، ہم تو غربت کی بات کر رہے تھے۔