Talash by Mumtaz Mufti

کتاب : تلاش

باب 4 : بڑی سرکار

ٹرانسکرپشن : عمارہ مہدی

قرآن

 پھر طفیل صاحب آگئے۔ طفیل پڑھا لکھا ہے، دنیا گھوما ہے، انڈسٹریلسٹ ہے، امیر کبیر ہے، غریب مزاج ہے۔ اس پر صرف ایک دھن سوار ہے۔ قرآن پڑھو، قرآن سمجھو، قرآن جیو، طفیل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی خاص مسلک کا حامی نہیں، کسی خصوصی طریق کار کا مبلغ بھی نہیں۔ کسی رویے کو رد نہیں کرتا۔ کوئی پابندی نہیں لگاتا۔ صرف قرآن کی جانب توجہ مبذول کرتا ہے۔ 
   کہنے لگا: "مفتی صاحب! کیوں ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ہیں۔ تمہارے پاس قرآن جو ہے۔ بس پڑھو، پھر پڑھو، پھر پڑھو، پھر پڑھو، پڑھتے ہی رہو۔ یہ تہہ در تہہ کتاب ہے۔ آہستہ آہستہ بھید کھولتی ہے۔ سہج پکے سو میٹھا ہونے والی بات ہے۔ ایک بار پڑھنے کی چیز نہیں۔ بار بار پڑھو۔ آہستہ آہستہ سب بھید کھلتے جائیں گے۔"
   مسعود نے کہا: "مفتی! قرآن کا صرف ترجمہ پڑھنا، تفسیر نہ پڑھنا۔ تفسیر میں مفسر کے ذاتی رویے کی جھلکیاں آجاتی ہیں۔"
   عمر نے کہا: "مودودی صاحب کا ترجمہ پڑھو۔"
   ابدال بیلا کہنے لگا: "مولانا اشرف علی تھانوی کا ترجمہ بہتر رہے گا۔"
   پھر ساجد صاحب تشریف لے آئے۔ ساجد متشرع مسلمان ہیں۔ وضع قطع میں علمائے دین کا رنگ ہے۔ باکردار ہیں۔ دنیاوی علوم سے خاطر خواہ واقفیت ہونے کی وجہ سے خیالات میں ماڈرن ہیں۔ اسلام کی خدمت کا جذبہ شدت سے طاری ہے۔ خلوص میں بھی شدت ہے۔
  ساجد صاحب ایک قرآن خرید کر لے آئے اور مجھے تحفہ پیش کردیا۔ کہنے لگے: "ترجمے کے لحاظ سے یہ قرآن بہترین ہے۔ دوسرے اغلاط سے بھرے ہوئے ہیں۔" قرآن کریم کے اختتام پر اعلان تھا کہ دوسرے تراجم یا تو غلط ہیں یا ناقص اور یا نامکمل اور سرسری ہیں۔ یہ اعلان سخت الفاظ میں تھا۔
   اختلافات کو ہوا دینا اور دوسروں پر کڑی نکتہ چینی کرنا اسلامی سپرٹ کے منافی ہے۔ میں پھر تذبذب کا شکار ہوگیا۔
   طفیل نے کہا: "اختلافات کی طرف دھیان نہ دیجیے۔ ہماری قوم کو اختلافات جنریٹ کرنے کی عادت ہے۔ کوئی سا قرآن پڑھیں، چاہے کسی کا ترجمہ ہو، قرآن آپ کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرلے گا۔ یہ بڑی طاقت ور کتاب ہے۔"
   قرآن پڑھ کر میں حیران رہ گیا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button