کتاب : تلاش
باب 6 : یہ خدا، وہ خدا
ٹرانسکرپشن : رابعہ حمید سیٹھی
یہ خدا، وہ خدا
میں نے بچپن میں محلے کے بڑے بوڑھوں کی باتوں سے اللہ کا جو مفہوم اخذ کیا تھا اس کی تصویر کچھ اس طرح بنتی تھی کہ ایک غصیل، زود رنج، دیو قامت بہت بڑا الاؤ جلائے بیٹھا ہے. ہاتھ میں لاٹھی ہے، ماتھے پہ تیوری ہے. انتظار کر رہا ہے کہ کب کوئی بندہ فوت ہو کے آئے تو اسے گردن سے دبوچ کر آگ میں جھونک دے.
میری کوئی خاص بات نہ تھی. عام مسلمان گھرانوں میں جو بچے پرورش پاتے ہیں اللہ کے متعلق ان کے ذہنوں میں ایسی ہی تصویر ہوتی ہےجو نفس لاشعور میں بیٹھ جاتی ہےاور دیر تک جوں کی توں قائم رہتی ہے.
میرے ذہن میں بھی اللہ کا یہ تخیل دیر تک قائم رہا.
پھر اتفاق سے سر جیمس جینز کی مشہور عالم کتاب The Mysterioys Universe میرے ہاتھ لگ گئی. اسے پڑھ کر میرے ذہن کا فیوز اڑ گیا. ارے اتنی وسیع، اتنی منظم، اتنی عظیم کائنات….. اسے تخلیق کرنے والا کیا ہو گا. میرے نفس غیر شاعر میں الاؤ جلائے بیٹھا ہوا پہلوان نما اللہ شرم سے پانی پانی ہو کر بہہ گیا. ایک عظیم خالق ابھرا. میں حیرت سے اسے بت بنا اسے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا.
پھر میں نے جانا کہ جو شخص کائنات کی حیران کن وسعتوں کو نہیں جانتا، وہ اللہ کی عظمت اور ہیبت کو نہیں سمجھ سکتا. دینی مدرسے کا پڑھا ہوا مسجد کا مؤذن جو دن میں بار بار اللہ اکبر کی آواز لگاتا ہے، وہ اللہ اکبر کے مفہوم سے واقف نہیں ہے.
کائنات کی حیران کن منصوبہ بندی اور کائنات کے خالق کی عظمت اور حکمت کو سمجھنے کے لیے فزیکل علوم کا جاننا لازم ہے.