کتاب : تلاش
باب 7 : دودھ کا پیالہ
ٹرانسکرپشن : حریم زاہرہ
سر پر لٹکتی تلوار
جب داس جانے لگا تو مہاراج نے آواز دی۔ بولے، میاں ہمارا ایک کام کرو، یہ کہہ کر مہاراج نے ایک لبا لب بھرا ہوا پیالہ داس کے ہاتھ میں تھما دیا ۔ بولے، دودھ کا یہ پیالہ اٹھائے رکھنا۔ خبردار ! اس پیالے سے ایک قطرہ دودھ بھی نیچے نہ گرے۔
پھر مہاراج نے جلاد کو بلوایا۔ بولے، تم ان کے ساتھ جاؤ ، اگر دودھ کا ایک قطرہ بھی پیالے سے گرے تو تم اس کا سر قلم کر دینا۔
اگلے روز مہاراج نے پھر داس کو بلا بھیجا۔
پوچھا میاں بتاؤ، کل رات شہر میں کیا کیا تماشے دیکھے ؟ کیا کیا رونقیں دیکھیں؟
داس ہاتھ جوڑ کر بولا، مہاراج ! میری تو ساری توجہ دودھ کے پیالے پر مرکوز تھی اور سر پر جلاد کی تلوار تھی.
مہاراج مسکرائے، بولے، ہمارا بھی یہی حال ہے۔ ہمارے گرو نے بھی ہاتھوں میں دودھ کا پیالہ تھما دیا تھا اور حکم دیا تھا کہ جاؤ ریاست کا راج پاٹ سنبھالو۔ دنیاوی شان و شوکت کے تماشے دیکھو۔ لیکن دھیان رہے کہ دودھ کا قطرہ زمین پر نہ گرے۔
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ بزرگ کی شناخت یہ ہے کہ اس کے ہاتھوں میں دودھ کا ایک پیالہ ہوتا ہے۔ چاہے وہ کرسئی اقتدار پر بیٹھا ہو یا چکلے کی نالی میں لت پت پڑا ہو اس کی تمام تر توجہ دودھ کے پیالے پر مرکوز رہتی ہے۔ لیکن ٹھہرئیے۔
صاحبو میری حماقت ملاحظہ کرو۔ میں دودھ کے پیالے کی بات کر رہا ہوں جب کہ میرے ساتھی دانشور بزرگوں کے وجود ہی سے منکر ہیں۔
الکھ نگری کی اشاعت کے بعد کچھ دانشوروں نے اخبارات میں مجھ پر اعتراضات کیے تھے۔