کتاب : تلاش
باب 7 : دودھ کا پیالہ
ٹرانسکرپشن : سعیدہ سونی
جھگڑا
صاحبو ! دیکھ لو دانشور کتنے منافق ہیں ۔ یہ مفتی باباؤں کی بات کرے تو اسے ڈانٹتے ہیں ۔ لیکن جنہوں نے ہمیں باباؤں سے متعارف کروایا ہے٫ ان سے اظہار عقیدت کرتے ہیں ۔ انہیں سلام کرتے ہیں٫ فاتحہ پڑھتے ہیں ۔ ان سے برکات کی استدعا کرتے ہیں ۔ لیکن دوستو ! یہ کوئ نئی بات نہیں ۔ یہ تو پرانا جھگڑا ہے جو دانشوروں اور اللہ کے درمیان چلا آرہا ہے۔
دانشور کہتے ہیں٫ اے اللہ ! اس دنیا کے نظام کو ایسے چلا جیسے ہم چاہتے ہیں ٫ یا کم از کم ایسے جو ہماری سمجھ میں آ جائے
ادھر اللہ میاں ٫ضد کئے بیٹھے ہیں ۔ کہتے ہیں ٫ میاں ! ہم قادر مطلق ہیں ۔ جو چاہیں گے کریں گے۔ تم ہمیں پابند نہیں کر سکتے۔
اس پر دانشور بھی ضد میں آ جاتے ہیں ۔اور کہتے ہیں اگر تو ہماری بات نہیں مانتا تو ہم بھی تجھے قادر مطلق نہیں مانتے۔ جو بات دل کو لگے گی ۔وہ مانیں گے ۔ جو نہیں لگے گی وہ نہیں مانیں گے۔
نتیجہ یہ کہ دانشور اللہ تعالی کی باتوں پر نقطہ چینی کرتے رہے ہیں۔ اور کر رہے ہیں ۔ یہ کیسے ہوا ۔ اور کیوں ہوا۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ قانون کے خلاف ہے۔
دانشور بھی سچے ہیں۔ کہتے ہیں جب اللہ تعالی نے کائنات کو چلانے کے لیے اصول اور قانون بنائے ہیں ، پھر اسے کیا حق حاصل ہے کہ اپنے بنائے ہوے اصولوں کی خلاف ورزی کرے۔؟ خود معجزے دکھائے اور بابوں کو کرامات دکھانے کی اجازت نہ دے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ ہمارے دانشور اللہ کو اپنی لاجک lojic کے تابع کرنے کے شوقین ہیں ۔ وہ جج بن کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اور اللہ کے کاموں پر فیصلے سناتے ہیں ۔ فلاں کام اللہ نے ٹھیک نہیں کیا٫ فلاں کام بلکل گڈ مڈ کر دیا۔ کیا خدائی یوں کی جاتی ہے؟ ہمارے دانشوروں کو سب سے زیادہ اعتراضات معجزوں اور کراماتوں پر ہے۔