گونگے کا خواب، طارق بلوچ صحرائی
تبصرہ : مریم عرفا
پہلی بار ایسا ہوا کہ کتاب کا نام پڑھا اور کتاب خرید لی وہ بھی ایک ایسے مصنف کی جو میرے لیے یکسر اجنبی تھا۔۔
جی ہاں میں بات کر رہی ہوں طارق بلوچ صحرائی کے افسانوی مجموعے “گونگے کا خواب” کی
وہ کہتے ہیں گونگے کا خواب اسے بڑی اذیت دیتا ہے۔۔۔۔
اور میں آپ ہم سب اس اذیت میں حصہ دار ہیں جو بولتے ہوئے بھی نہیں بول سکتے روزوشب تماشا ہوتے دیکھتے ہیں لیکن قوتِ گویائی رکھتے ہوئے بھی لبوں پہ چپ کا پہرا ہے کیونکہ یہاں سوچنے پہ بولنے پہ پابندی ہے اور ہم بزدلوں کو زندگی عزیز ہے چاہے وہ گیدڑ کی ہی سی ہو۔۔۔!!!
جیسے جیسے کتاب پڑھی سوچ کے کئی در وا ہو گئے یوں لگا جیسے مخاطب میں ہی ہوں اور یہی کچھ تو میرے دل کے کسی کونے کھدرے میں تھا جس سے میں نظریں ملانے سے ہچکچاتی تھی کیونکہ میں سوچنے سے ڈرتی ہوں اپنا سر عزیز ہے ناں۔۔۔
طارق صاحب کہتے ہیں “گونگے بہرے استادوں سے جب کوئی بچہ تختی لکھنا سیکھے گا تو وہ پہلا لفظ دکھ اور دوسرا سناٹا لکھے گا”
ٹھیک کہتے ہیں کہنے کو بہت کچھ ہو اور لب تک نہ آ پائے سننا چاہیں اور کوئی سنانے والا نہ ہو اذیت سی اذیت ہے اور ہم اذیت پسند ہیں—
قوت اظہار چھن جانا بڑا عذاب ہے
گونگی چیخ دم گھونٹ دیتی ہے۔۔!!!
کتاب پڑھتے پڑھتے جب اس بات پر پہنچی تو جھوم سی گئی اور پہروں اس کے اثر سے خود کو آزاد نہیں کر پائی۔۔
جھلیا کملی والے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں یا تو رب رہتا تھا یا اس کی امت اس حساب سے ہم رب کے ہم نشیں ہوئے ناں۔۔۔ یار عدنان جب مجھے اس اعزاز کا علم ہوا تو میں تشکر سے مہینوں روتا رہا۔۔۔ ہم نشیں سے محبت ہونا فطری سی بات ہے ناں!!!
اس بات کے اثر سے آزاد نہیں ہو پائی تھی کہ ایک اور فقرے نے جکڑ لیا۔۔
“جب رب بندے سے راضی ہوتا ہے تو اسے علم کا تحفہ عطا کرتا ہے”
اس مادیت پرست دور میں یہ کہنا
“پتر دولت جیسی گھٹیا چیز کے لیے جھکا نہیں کرتے”
دم بخود کر دیتا ہے اور سوچتی رہ جاتی ہوں دولت سے بڑھ کے آج کی ترجیح کیا ہے شاید ہم خود بھی نہیں ہائے افسوس۔۔۔
لکھنے پہ آؤں تو ہر ہر فقرہ سامنے آ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے میرے سحر سے نکل کر دکھاؤ۔۔۔ جابجا اتنے استعارے لئے ہوئے ہے کہ یوں لگتا ہے بھرپور زندگی بولنے لگی ہوں ایک الگ سا جہان آباد ہے مثلاً۔۔۔
*میرا بابا کہتا ہے جھلیا تنہا تو تنہائی میں ہی ملتا ہے۔۔
*رب کا قرب چاہتے ہو تو مخلوق خدا کو ماں کی نظر سے دیکھو۔۔۔
*جب راستے ہی سفر چھپانا شروع کر دیں تو قدموں کے کارواں بے توقیر ہو جایا کرتے ہیں۔۔
*کچے مکان کو بارشوں میں فروخت نہیں کیا کرتے کچھ دام نہیں ملتے”
*غلام قوموں کا مقدر بھی عجیب ہوتا ہے, ادھوری باتیں, ادھوری کہانیاں, ادھورے لفظ, اور ادھورے خواب
سنگِ میل پبلیکیشنز سے شائع کی گئی کتاب “گونگے کا خواب” 188صحفات پر مشتمل ہے۔۔
کتاب پر لکھی گئی قیمت 500 ہے جبکہ مجھے 350 میں ملی۔۔۔۔
اس میں 23 افسانے موجود ہے اور ہر افسانہ اپنے اندر ایک الگ جہان آباد کیے ہوئے ہے آپکو ادبی اور اصلاحی پہلو تو ملیں گئے ہی ساتھ ساتھ اپنی ذات میں جھانکنے پہ بھی آپکو مجبور کرے گا۔۔۔
مصنف نے ہلکے پھلکے افسانوی انداز میں کچھ اس طرح معاشرے کی انفرادی اور اجتماعی برائیوں کو اجاگر کیا ہے کہ اکتاہٹ بھی نہیں ہوتی اور سوچ کے کئی در وا ہو جاتے ہیں۔۔
آپکو بہت سے ٹاپک اور بہت سے رنگ اس ایک کتاب میں ملیں گئے اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا وقت نکالیں اور ضرور پڑھیں۔۔!!!