کتابوں پر تبصرے

خوابوں کے بند دروازے ، امین صدرالدین بھایانی


تبصرہ = حسن امام

فن اس وقت تک اپنے صحیح منصب پر فائز نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ سماجی ، تہذیبی ، ثقافتی، سیاسی ، اقتصادی اور سائینٹیفک قدروں کو تمام تر ادبی روایتوں کے ساتھ اپنے اندر جذب نہ کر لے ۔ ایسا ادب جو صرف تنہائی کی وادیوں ، ذات کے گُھپ اندھیروں اور شعور کی بے بصارتی کے زیر سایہ پروان چڑھے وہ اور تو سب کچھ ہو سکتا ہے اعلیٰ ادب نہیں ہو سکتا ۔ امین بھایانی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ادب میں زندگی کی معروضی صداقتوں کو فنی التزام کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کے محاذ پر فکر و نظر کی جو آویزش جاری ہے اس میں وہ ایک سچے فنکار کی طرح ان تمام صحت مند حربوں کو استعمال کرنے میں مصروف ہیں جن کے ذریعہ ادب میں نراجیت ، مایوسی اور جھوٹ کا دندان شکن جواب دیا جا سکے ۔ وہ افسانہ نگاری کے ذریعہ دیگر صاحبان فکر و نظر کے ساتھ قلم کی تلوار تھامے ، صداقت کا عَلم بلند کر رہے ہیں ۔ “ بھاٹی گیٹ کا روبن گھوش “ ہو “ بے چین شہر کی پرسکون لڑکی “ یا “ خوابوں کے بند دروازے “ یہ علم بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے ۔

امین بھایانی کے ارد گرد غربت ، افلاس ، استحصال ، استعجاب ، نا انصافی اور خانماں بربادی کا جب جال پھیلا نظر آیا تو ان کی طبیعت نے گوارا نہ کیا کہ وہ ان تمام مناظر کے صرف تماشائی بنے رہیں ۔ ان کے اندر ایک رد عمل ہوا اور انہوں نے اپنے رد عمل کو دوسروں تک پہنچانا چاہا اور غفلت اور بے حسی کی دیوار گرانے کے لیئے بے چین ہو گئے ۔ جذبات و محسوسات کو راستہ آخر کار لفظوں کے پیکر میں ڈھل کر مل گیا ۔ اور انہوں نے اپنے اس کرب کو صفحۂ قرطاس میں افسانوں کی شکل میں منتقل کر دیا ۔ دو تین سال کے عرصے میں تین افسانوی مجموعے پیش کر دینا کوئی آسان کام نہیں ۔ امین بھایانی کے افسانوں کے مجموعے “ بھاٹی گیٹ کا روبن گھوش “ اور “ بے چین شہر کی پُرسکون لڑکی “ ارباب نقد و نظر سے داد و تحسین وصول کر چکے ہیں۔ “ خوابوں کے بند دروازے “ ان کی تیسری کتاب ہے ۔ اس مجموعے میں سب ہی کہانیاں اپنے موضوع اور مواد کے لحاظ سے اہم ہیں ۔ ان کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب میں دس افسانے ، چھہ افسانچے اور روزنامہ “ سرگرم “ میں پیش کیا گیا ان کا انٹرویو شامل ہے ۔ کتاب جناب محمود ظفر اقبال ہاشمی صاحب کو معنون کی گئی ہے اور ایک اور خاص بات یہ ہے کہ امین بھایانی نے ہم عصر ادیبوں کی رائے کو فلیپ پر جگہ دی ہے ۔ آئیے اس کتاب میں شامل افسانوں کو “ پرندوں کی نظر “ سے دیکھتے ہیں ؛

شہر کی روشنیاں = اندھیرے سے روشنی تک کا سفر ۔ ملک میں موجود مختلف گروہ بندی پر ایک عمدہ تحریر۔

خوابوں کے بند دروازے = ایک ایماندار اور اصول پرست باپ جو اچھے عہدے پر ہوتے ہوئے بھی کبھی اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ حاصل کرنے پر یقین نہیں رکھتا تھا جس کے نتیجے میں بیٹا اس سے بدظن ہو گیا لیکن جب بیٹے کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی ۔

لال موم بتیاں = حیرت و استعجاب سے بھرپور افسانہ جسے پڑھ کر کسی جاسوسی کہانی کا سا لطف آیا ۔

کماؤپوت= بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ رویے اور برتاؤ میں تبدیلی کا عمدہ بیانیہ ۔

نائٹ شفٹ = جب والدین بچوں کے ذہنی رحجان کو خاطر میں نہیں لاتے اور اپنی ضد میں بچے کی مرضی کے خلاف شعبے کا انتخاب کرتے ہیں تو جو نتیجہ بر آمد ہوتا ہے وہ کسی کے لیئے بھی پسندیدہ نہیں ہوتا ۔

ہیرو = ایک ایسے نوجوان کی کہانی جو کسی بھی طرح بریکنگ نیوز میں آنا اور نمایاں ہونا چاہتا تھا لیکن ایک واقعہ نے اس کی آنکھیں کھول دیں ۔

محبت کا پہلا قرینہ = انا کے زعم میں گرفتار ایک نوجوان کی کہانی جو اپنی ذہانت کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھا تھا لیکن زندگی نے اسے ایک سبق دیا ۔

سانس کی ڈور = کوما میں رہنے والی ایک عورت کی داستان جنہوں نے اس دوران خواب جیسی کیفیت میں بہت کچھ دیکھا اور یہی ان کی صحتیابی کا سبب بنا ۔

شکریہ = دفتر کے ایک نچلے درجے کے ملازم کی کہانی جس کی خدمات کا کبھی بھی اعتراف نہیں کیا گیا ۔
ٹار چر سیل = معاشرے میں ہونے والی نا انصافی کے نتیجے میں نوجوان نسل کے باغی ہوجانے کا نوحہ ۔

امین بھایانی نے اپنی کتاب میں عوامی مسائل اور سماجی دشواریوں کا لطیف انداز میں احاطہ کیا ہے ۔ انہوں نے معروضی حقائق اور سماجی عناصر کو کہانی کا موضوع بناتے وقت ادب کی روایات اور فن کے بنیادی التزام سے رو گر دانی نہیں کی ۔ ان کے ہاں تجربہ بھی ہے اور تجزیہ بھی ۔ اسلوب کی تازگی بھی ہے اور بیان کی روانی بھی ۔ موضوع اور مواد کا تنوع بھی ہے اور سماجی بصیرت ، سیاسی بصیرت اور سیاسی شعور کی کار فرمائی بھی ۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں جذبات کا خلوص بھی ہے ۔ وہ زیادہ تر متوسط اور نچلے طبقے کی زندگی اور مسائل سے کہانی کا تانا بانا بُنتے ہیں ۔ کردار کے خد و خال ابھارنے اور ان کا قاری کے ذہن پر نقش چھوڑنے کا فن بھی انہیں خوب آتا ہے ۔ وہ جذبے کے اظہار کے لیئے ثقیل الفاظ استعمال نہیں کرتے ۔

امین بھایانی کے فکر و فن کا ارتقائی سفر جاری ہے ، مجھے یقین ہے کہ وہ بہتر سے بہتر افسانے لکھتے رہیں گے اور ادب میں اعلیٰ مقام حاصل کر لیں گے جس کے وہ اہل ہیں ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button