لکھ یار
حسرت……. تحریر: ابن حیدر
حسرتوں پر کڑھتے ھو ؟
کیا ہیں کیوں ہیں یہ آخر ؟
ادھورپن میں پھاھا ہے
ان کہی کا مرہم ھے
بے بسی کے عالم میں
زیست کے چراغوں میں
درد کا یہ روغن ھے
لاحصل کی چاھت میں
آبلہ مسافت میں
تھکن سے شکستہ پا
آدمی کی لاٹھی ھے
حسرتیں مکمل کی
چادریں یہ ململ کی
ان میں تیرتے آنسو
بس میں کب یہ ھوتے ہیں
حسرتیں مقدر ہیں
زندگی کے مطبخ میں
بے بسی کا سالن ہیں
حسرتیں حقیقت میں
خواہشوں کا بالن ہیں
آو ایسا کرتے ہیں
حسرتوں کی بھٹی میں
صبر جھونک دیتے ہیں
شکر ڈال دیتے ہیں
صبر شکر پانی ھے
حسرتیں کہانی ھے
آو ایسا کرتے ہیں
حسرتیں کچل ڈالیں
جو ادھورے سپنے ہیں
ان کو ہم مسل ڈالیں
زندگی کی چادر پر
عسرتوں کے ٹانکے سے
باب نو شروع کرلیں
تھوڑے پر قناع کر لیں
اور سے رجوع کر لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔