لکھ یار

فیاض حسین بنام سرکار – زاہد خان نیازی

کچھ دنوں سے گھر میں اخبار نہیں آ رہا تھا ۔اخبار کے بغیر ناشتہ پھیکا پھیکا محسوس ہوتا ،
کیا مصیبت ہے ؟؟فیاض حسین نے جھلا کر سکینہ خاتوں کو آواز دینا چاہی ،پھر خاموش ہو گیا ۔۔سکینہ خاتون نے فیاض حسین کی طبیعت میں بے چینی بھانپ لی،مگر خاموش رہی ، ناشتہ جیسے تیسے ختم کر کے وہ صحن میں آیا تو سکینہ خاتون نے گھر کے سودا راشن کی لسٹ تھما دی
” اس دفعہ سبزیاں دیکھ بھال کر لیجئے گا ۔ساری گلی سڑ یاں ہمارے سودے میں ڈال دیتا ہے “
سکینہ خاتون نے روزانہ کی طرح ہدایت کی
اچھا اچھا ۔۔ٹھیک ہے ۔” فیاض حسین جواب دیتے گھر سے باہر آ گئے
دو مکان چھوڑ کرگلی میں اپنے دروازے پر نذیراں بی بی پڑوسن مریداں کے ساتھ رازو نیاز کے انداز میں باتیں کر رہی تھی ان کے انہماک کا اندازہ ان کے چہروں کے تاثرات اور ہاتھوں کے ہلانے سے دور سے نظر آ رہا تھا ۔فیاض حسین کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
کیسی ہیں آپ ؟؟ فیاض حسین نے پوچھا
اللہ‎ کا شکر ہے ۔۔بھائی صاحب ۔سب ٹھیک ہے ،نذیراں نے جواب دیا ،مریداں نے آہستہ سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ۔فیاض حسین نے آہستگی سے کن آنکھوں سے مڑ کر دیکھا کہ مریداں نے کیا دیکھا ،تو کوئی بھی نہیں تھا
“یہ عورتیں ،اگر گلی میں روز پورے محلے کے حالات پر بات نہ کریں توشاید بیمار پڑ جایں”فیاض حسین نے سوچا اور چل دئے۔ گلی کا ایک موڑ مڑتے اچانک ایک موٹر سائیکل شور مچاتا ہارن بجاتا چڑھ آیا ،اور ایک دم سے کٹ مار کر فیاض حسین کو چھو کر گزر گیا ۔کچھ لمحے فیاض حسین کا سانس رک گیا ۔ہوش آیا تو گہرا سانس لیا تو کھانسی ہونے لگی ۔مڑ کر دیکھا تو موٹر سائیکل گلی کا موڑ مڑ گیا تھا ۔۔
“میرے خدا ! اب یہ مشینیں کسی دن گھر میں بیٹھے انسان پر چڑھ دوڑیں گی “
۔فیاض حسین کے اوسان بحال ہوے تو چل دئے ۔گلی میں جیسے کچھ ہوا ھی نہیں تھا ۔
گلی کی نکڑ پر شاہنواز کی کریانہ کی دوکان تھی جس کے اگے سبزیوں اور پھلوں کا ٹھیلا لگا ہوا تھا ۔
سلام ماسٹر صاحب ! کیسے آج صبح سویرے ؟؟ خیریت پوچھتے سلام دعا کرتے ہمیشہ شاہنواز کی نظر گاہک کے ہاتھوں اور جیب پر ہوتی ۔۔
“اللہ‎ کا شکر ہے ، تم ٹھیک ہو ، خوش رہو ۔”
فیاض حسین نے سودا کی پرچی شاہنواز کے حوالے کی، ” سبزیاں تازہ دینا ،خیال سے۔ گلی سڑی نہ دے دینا ۔کل کی طرح ”
فیاض حسین نے زور دے کر کہا
کل تو آپ آے نہیں ۔۔شاہنواز نے بتانا چاہا مگر خاموش رہا ۔تفصیل میں گئے تو اپنا کھاتہ خراب ہو گا وہ چپ رہا اور سودا تولتا رہا۔
“انشااللہ آیندہ شکایت نہیں ہو گی ۔سودا میں گھر بھجوا دیتا ہوں ۔آپ کو تکلیف ہو گی “۔شاہنواز نے پوچھا ۔
“جیتے رہو ۔ یاد سے ،جلدی سے بھجوا دینا “
فیاض حسین نے ندیم حجام کی دکان پر رک کر اخبار پڑھنا چاہا مگر طبیعت بہت مکدر ہو چکی تھی ۔اسلئے پارک کی طرف چل دیا ۔پارک میں اس وقت رش نہیں تھا۔ اکا دکا لوگ ،کچھ خواتین چہل قدمی میں مگن ،ایک دوسرے سے باتیں کرتے آ جا رہے تھے ۔فیاض حسین ایک پرانے برگد کے درخت کے نیچے بینچ پر بیٹھ گیا ۔یہ برگد کا درخت اس وقت بھی بوڑھا تھا جب میری مسیں نہیں بھیگی تھیں اور آج مجھ پر بڑھاپاحملہ اور ہو چکا ،شاید مجھے زیر کر چکا ہے اور برگد کا درخت ویسے کا ویسے بوڑھا ۔اسکا بچپن ،جوانی اور اب یہ دن اس برگد کے درخت کے اس پاس آے ،قیام کیا اور چلے گئے ۔وہ سوچ میں پڑ گیا ۔اچانک ہلکی ہلکی ہوا جو پتوں کی مدھم مدھم سرسراہٹ میں چلتی محسوس ہو رہی تھی ،تھم گئی اور آس پاس چہل قدمی کرتے لوگوں کی باتیں ،اور قدموں کے نیچے کچلتے خشک پتوں کی چرچراہٹ رک گئی ۔اس نے اپنی ناک کی سیدھ میں دیکھا ۔منظر دھندلادکھائی دیا ،کچھ وجود ہیولوں کی مانند نظر آے اس دھند میں ڈوبے منظرمیں سرخ رنگ کی بہت بڑی عمارت جس کے باہر بہت سارے لوگ جمع تھے سبھی لوگوں کی توجہ عمارت کے دروازے سے نکلنے والے شخص پر مرکوز ہو جاتی۔ کچھ لوگ عمارت کے اندر چلے جاتے اور باہر بیٹھے لوگ آپس میں بات چیت میں مصروف ہو جاتے اب کی بار وہ شخص باہر آیا آواز دی ،””فیاض حسین بنام سرکار “” وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا عمارت میں داخل ہوتا ہے ۔ایک گھمبیر خامشی ہے ۔سامنے اونچے چبوترے پر ایک شخص جس کے دائیں اور بائیں اور لوگ بیٹھے ہیں ،وہ چبوترا کے دائیں طرف کھڑا ہو گیا ۔چبوترا کے اوپری طرف درمیان میں بیٹھے شخص نے اگے جھک کر اسے پکارا ،”فیاض صاحب ،آپ کی بیٹی نورین عاقل اور بالغ ہے وہ آپ کے پاس نہیں جانا چاہتی ،اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اس کا کہنا ہے وہ اپنے خاوند کے ساتھ خوش ہے ” اتنا کہہ کر اس شخص نے ایک فائل بائیں بیٹھے شخص کی طرف رکھ دی کمرے میں ٹائپنگ مشین کی کھٹ کھٹ دبی دبی سرگوشیاں صاف سنائی دے رہی تھیں ۔اس نے اپنی آواز کو سنا ۔اس نے کچھ کہا تھا ۔مگر اس کو بھی صحیح سے سنائی نہیں دیا ۔صرف چند الفاظ “نورین فیاض،میری بیٹی ،نوری “” وہ پارک میں دوڑ رہی ہے ۔گلابی رنگ کا فراک جس پر سنہرے رنگ کے پھول بنے ہوے تھے ،بھورے رنگ بالوں کی چوٹیوں پر گلابی رنگ کے ربن،گلابی گال اور گلابی شوز ،اس نے ابھی چلنا سیکھا ہے دوڑنا چاہتی ہے تو گر جاتی ہے ۔اچانک اسے دیکھتے اور دوڑتے وہ ٹھوکر کر گرنے لگتی ہے ۔فیاض حسین اسے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اور بینچ سے منہ کے بل گر جاتا ہے ۔
صحن میں سکینہ خاتوں کے ہاتھ میں اخبار ہے وہ خاموش بیٹھی آسمان کو تک رہی ہے ،اخبار کے صفحہ کا نچلا حصہ گیلا ہو گیا ہے جس پر خبر ہے “۔۔۔۔ ایک باپ نے اپنی بیٹی کے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کے دکھ میں خودکشی کر لی “

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button