حیات از قلم عظمیٰ خرم
#پری_اپرووڈ
#حیات_پارٹ_5
# حیات
پارٹ 5
از قلم ،”عظمیٰ خرم”
روتے بلکتے زاہد اور حامد کو ماسٹر اللّه دتہ کے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا۔ماسٹر اللّه دتہ سانولی رنگت کے با ریش مگر سخت گیر انسان تھے۔وہ یہاں کے وارڈن تھے اور حافظہ اس قدر تیز کہ سب بچوں کو ان کے نام سے جانتے تھے ۔ بچوں کی کاپیاں چیک کرتے انہوں نے نظر اٹھا کر آنے والے دونوں بچوں کو سرد نظروں سے دیکھا۔یہ منظر ان کے لئے بلکل بھی نیا نہیں تھا ۔زاہد اور حامد اب گھٹی گھٹی ہچکیاں لے رہے تھے ۔”کون چھوڑ کے گیا ہے انہیں ؟” ماسٹر صاحب نے شبیر کو مخاطب کیا ،”سر ان کی اماں نے جمع کروایا ہے ان کو ۔وہ خود ہسپتال میں نوکری کرتی ہے اور سر کا سائیں اللّه کو پیارا ہو چکا ہے”۔ ماسٹر صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے شبیر کی چپ کروایا ،”ہاں ہاں سمجھ گیا تبھی یہ ہمیں پیارے ہونے آے ہیں ۔ہاں بھئ !نام بتاؤ اپنے ؟” زاہد اور حامد ابھی تک رو رہے تھے ،”اوے نام بتاؤ اپنے ؟ سنا نہیں کیا کہا میں نے ؟اور بند کرو یہ چوں چوں ،ماں کو بھی ایسے ہی تنگ کرتے ہو گے جبھی وہ چھوڑ گئی ہے تم لوگوں کو یہاں ۔ایک بات کان کھول کر سن لو ،یہاں صرف میرا حکم چلتا ہے ،بندے کے پتر بن کے رہو گے تو بلے بلے ورنہ مجھے سب طریقے آتے ہیں ۔او تم لوگ ہو کیا شے ؟میں نے تو بڑے بڑے بے لگاموں کو لگام ڈالی ہے۔نام بتاؤ فورا ،سوال دہرانے کی عادت نہیں ہے مجھے “۔ زاہد اور حامد نے سہمی ہوئی بهيگی نظروں سے ماسٹر اللّه دتہ کو دیکھا قمیض کے كف سے ناک رگڑا اور اپنا اپنا نام بتایا ۔” یہ ان کا ماسٹر اللّه دتہ سے پہلا تعارف تھا جو کہ بلکل بھی خوشگوار نہ تھا ۔ انہیں ہال نمبر چار میں بھیج دیا گیا تھا ۔یہاں تو ایک الگ ہی دنیا آباد تھی قطار در قطار لگے ہوے سنگل بستر ۔اور ہر طرف ان جیسے چھوٹے بڑے بچے ۔شبیر نے انہیں ان کے بستر دکھاے اور ہال سے باہر نکل گیا ۔زاہد اور حامد نے حیرانگی سے اپنے اطراف موجود بچوں کو دیکھا جو ان کے طرف ایسے دیکھ رہے تھے جیسے چڑیا گھر میں نیے جانوروں کی آمد پر پرانے جانور انہیں دیکھتے ہیں ۔حامد کا رونا پھر سے شروع ہونے ہی والا تھا کہ ایک پندرہ سالہ لڑکے کی ہال میں آمد ہوئی ۔اسے دیکھتے ہی سب بچے اسکی جانب متوجہ ہو گئے ۔پتلا دبلا ،لمبا تڑنگا مسکراتا چہرہ ٹھوڑی آگے کی طرف اٹھی ہوئی ،عارف نے آتے ہی ہال میں چاروں طرف نظر دوڑائی ،”نیے لڑکے کونسے ہیں ؟” سب بچوں نے حامد اور زاہد کی طرف دیکھا ۔عارف تب تک ان کے پاس جا پہنچا تھا اس نے دکھی نظروں سے حامد اور زاہد کو دیکھا جيب سے رومال نکال کر اسے دیا تاکہ وہ اپنے آنسو اور بہتی ہوئی ناک کو صاف کر سکے ،”دیکھو پیارے !یہاں سب تم جیسے ہیں آدھے ،ادھورے ،کسی کی ماں نہیں تو کسی کا باپ نہیں اور کسی کے دونوں ہی نہیں ۔اس لیے آج کے بعد رونا نہیں ،ویسے بھی مجھے تمہاری بےبے نے بھیجا ہے تا کہ میں تم دونوں کے ساتھ رہوں اور تمہارا خیال رکھوں “۔ تبھی پاس کھڑے کئ بچوں کی آنکھیں حیرت سے کچھ اور پهيل گئیں۔”آفی بھیا !ان کی بےبے نے بھی آپ کو ہی بھیجا ہے کیا ؟” پاس کھڑے سات سالہ ننھے رمضان نے حیرت سے سوال کیا ،”ہاں بلکل !ان کی بےبے نے بھی مجھے ہی بھیجا ہے ،بس اب مزید کوئی بات نہیں سب لوگ آپس میں دوست بن کے رہیں گے اور زاہد اور حامد کا بھی خیال رکھیں گے اور اب سب بچے ہاتھ دھو کے کھانے کے لئے آ جاؤ شاباش “۔زاہد اور حامد نے آفی سے پوچھا ،”بھیا ہماری بے بے کہاں ہے ؟ہمیں ان کے پاس جانا ہے”۔ عارف نے ترس کھاتی نظروں سے انہیں دیکھا ،”دیکھو !میں نے تمہیں بتایا ہے نا کہ مجھے تمہاری بےبے نے بھیجا ہے یہاں تمہارا خیال رکھنے ،کیوں کہ وہ خود یہاں نہیں رک سکتی تھیں انہیں تمہاری بہن اور بھائی کے پاس واپس بھی تو جانا تھا،بس اب تم لوگ یہاں رہ کر پڑھو لکھو اچھے نمبروں سے پاس ہو جاؤ پھر تمہیں کوئی نہیں روکے گا بےبے کے پاس جانے سے۔بس اب اور کوئی بات نہیں جلدی سے ہاتھ منہ دھو لو رات کے کھانے کا وقت ہو رہا ہے “۔
زاہد اور حامد نے دیکھا قطار در قطار لمبی لمبی میزیں اور ان کے ساتھ لمبے لمبے لکڑی کے تختے سب بچے جلدی جلدی اپنی جگہوں پر جا کر بیٹھنے لگے ۔عارف نے انہیں ہچکچاتے دیکھا تو خود انہیں ہاتھ پکڑ کر ایک میز پر لے گیا اور خود بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔زاہد اور حامد کے لئے یہ سب بلکل نیا اور حیران کن تھا۔کھانا بانٹنے والے نے ایک ایک تھالی ان دونوں کے سامنے بھی رکھی اور آگے بڑھ گیا تھالی میں ایک طرف ایک مرغی کی بوٹی اور شوربا اور ساتھ ابلے ہوے چاول تھے ۔حامد نے بڑے عرصے بعد بوٹی کی شکل دیکھی تھی جب سے ابا مرا تھا وہ صرف دال اور سبزی پر گزارا کرتے تھے ۔عارف نے مسکراتے ہوے زاہد کو دیکھا اور اس کے کان میں سرگوشی کی ،”تم دونوں کی بےبے کے کہنے پر آج یہ سالن پکایا گیا ہے ،خوش ہو کر کھاؤ “۔دونوں نے خوش ہو کر دلجمی سے کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد ہر بچے کو کھیر کی ایک ایک ٹھوٹھی دی گئی ۔زاہد اور حامد کی آنکھیں حیرت سے اور پهيل گئیں انہوں نے عارف کی طرف دیکھا اور وہ مسکرا کے بولا ہاں ہاں یہ بھی تمہاری بےبے کے کہنے پر ۔
دونوں بچوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور دل محبت سے بھر گئے ۔کتنا غلط سوچ رہے تھے وہ بےبے کے بارے میں کہ اسے ان دونوں کی بلکل بھی پرواہ نہیں اسی لیے اس طرح لاوارث چھوڑ کے چلی گئی ۔احساس تشکر سے لبریز دونوں کے دل کھیر کی مٹھاس میں لتھڑ گئے تھے ۔کھانے کے بعد سب بچے سونے کے لئے بڑے ہال کمروں میں چلے گئے ۔کچھ بچے جاتے ہی اپنی اپنی کاپیاں کھول کر اسکول کا کام کرنے لگے ،کچھ سبق یاد کرنے لگے ۔کچھ بچے بستر پر بیٹھ کر باتیں کرنے اور کھیل کھیلنے لگے ۔کچھ دیر بعد وہی صبح والا آدمی شبیر آیا اور سب کو سونے کے لئے کہنے لگا ۔تبھی گھنٹے کی آواز آئی اور پورے ہال کی چھوٹی بتیاں جلا دی گئیں اور بڑی بتیاں بند کر دی گئیں ۔حامد تو لیٹتے ہی نیند کی وادی میں جا پہنچا کہ بڑے عرصے بعد اتنا اچھا کھانا اس نے کھایا تھا دماغ پر نیند کا خمار تو چھانا ہی تھا۔زاہد کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی ۔اس کی آنکھوں میں بےبے کا عکس جگمگانے لگا ۔اس کا دل چاہا زور زور سے رو دے وہ بےبے کی آغوش میں منہ چھپانا چاہتا تھا،بلا شبہ آج کی رات بہت بھاری تھی ۔
پر زاہد کا خیال غلط تھا کہ آج کی رات صرف اس پر بھاری تھی ،سچ تو یہ تھا کہ میلوں کے فاصلے پر بیٹھی ماں جیسے انگاروں پر لوٹ رہی تھی ۔دارلشفقت کے چوکیدار کے دلاسے کچھ کام نہ آے تھے ۔بختوں کی ماری،” بختو “،جانے کتنا پیدل چلی ،اسے ایک دم اپنا وجود اپنی جھولی اپنی کوکھ حتہ کہ یہ دنیا سب خالی اور بے معنی لگنے لگا ۔یہ وہ بختو تو نہیں تھی کہ جو دل میں اک آگ لئے پھرتی تھی جس کا جگر شیرنی کا تھا ،یہ تو کوئی لٹی پٹی ہاری ہوئی ،”کم بختوں “،کی ماری تھی جو زندہ لاش کی طرح ہوش و خرد سے بیگانہ خود کو گھسیٹے چلے جا رہی تھی۔ جانے کتنا پیدل چلی ؟کب سواری ملی ؟کیسے وہ کواٹر تک پہنچی کچھ علم نہیں ۔ممتا کی ماری آتے ہی چارپائی پر ڈھیر ہو گئی ۔ساتھ والی نوراں نے اسے ڈھیلی چال چلتے اپنے کواٹر کی طرف جاتے دیکھا تو پیچھے لپكی پر بختاور کی حالت دیکھ کر اس کی پریشانی اور بڑھ گئی ،”بختو !بختو !دیکھ میری طرف ہوش کر ،کیا ہوا ہے تجھے ؟سب ٹھیک ہے ؟”نوراں کو انجانے خدشوں کے کالے ناگ چاروں طرف سے گھیرنے لگے ۔بختاور نے خالی خالی نظروں سے نوراں کو دیکھا اور اس کے گلے لگ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگی ،”میں مر کیوں نہ گئی نوراں !یہ دن دیکھنے سے پہلے میں مر کیوں نہ گئی ،ہاے میرے بچے ،میرے لعل ،رل گئے میرے بچے ،چھوڑ آئی میں انہیں زمانے کی ٹھوکروں پر ،کیسی ظالم ماں ہوں میں “۔اب اس نے باقائدہ سینہ کوبی شروع کر دی تھی ۔نوراں کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی یہ سب سن کے پر وہ کر بھی کیا سکتی تھی یہاں تو ہر شخص کو اپنے پیٹ کے دوزخ سے مطلب تھا بس دوسرے کی زندگی کب،کیسے ، کیوں دوزخ ہو جائے کسی کو اس سے کیا مطلب ؟
آج کی رات اگر کسی پر سہی معنوں میں بھاری تھی تو اس بے کس ماں کے لئے ،بخار میں تپتی بختاور نے نوراں کے لاکھ اصرار پر ایک لقمہ حلق سے نیچے نہ اتارا تھا ۔عجیب جاں بلب تھی بار بار ہاے ہاے کی گردان کرتی آنسو بہاتی دونوں ہاتھوں سے پیٹ کو دباتی اسے لگتا جیسے کوئی چھری سے اس کی آنتیں کاٹ رہا ہو بے بسی سی بے بسی تھی کوئی ۔بار بار احد کو سینے سے لگاتی کبھی شازی کو چومتی ۔ماں کو روتا بلکتا دیکھ کر وہ بھی رو پڑتی ۔بڑی مشکل سے نوراں اسے دوا کھلانے میں کامیاب ہو پائی ۔روتے کرلاتے غنودگی میں جاتے ،جانے رات کا کون سا پہر تھا جب اس کے کانوں نے وہ دلکش پر سوز تلاوت سنی سردیوں کی سرد تنہا ظالم رات میں کوئی بڑے جزب سے اپنے رب سے ہم کلام تھا ۔
الضُحی
والیل اذا سجی…….”
“قسم ہے آفتاب کی روشنی کی ۔اور رات کی جب وہ چھا جائے ۔اور نہ تو چھوڑ دیا تم کو تمہارے رب نے اور نہ ہی ناراض ہوا ۔اور بے شک آخرت بہتر ہے تمہارے لئے دنیا سے ۔اور عنقریب عطاء فرماے گا تمہارا رب کے تم خوش ہو جاؤ گے ۔کیا نہیں پایا اس نے تمہیں یتیم پھر ٹھکانہ دیا ۔”
بختاور بےچینی سے اٹھ بیٹھی ۔وہ اس غم میں اكيلی نہیں تھی کوئی تھا جو اسے تسلی دے رہا تھا ڈھارس بندها رہا تھا،دلاسہ دے رہا تھا ،بس وہی تو تھا اس کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے ہر غم میں برابر کا شریک اس کی ہر آزمائش کا ساتھی ،مدد گار ،ستر ماؤں سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ،سچا ،سوہنا رب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی اچھے بچے کی طرح ميكينكی انداز میں وہ اٹھی وضو کیا اور جائے نماز پر کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تہجد کے نفل کی نیت باندھی ہی تھی کہ کوئی آواز اس کے وجود میں سنائی دی ،”آخر آنا ہی پڑا تمہیں ۔۔۔۔۔” “ہاں آنا ہی پڑا ۔۔۔۔۔۔۔اور جانا بھی کہاں تھا؟ ۔۔۔۔۔۔۔جاتی بھی کہاں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔کتنی دور ؟۔۔۔۔۔۔۔۔کب تک ؟۔۔۔۔۔۔۔لوٹنا تو یہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔اففف میرے اللّه !میرے سوہنے ربا !مجھے معاف فرما دے ۔۔۔۔۔۔میں نے دیر کر دی لوٹنے میں ۔۔۔۔۔۔۔میں بھٹک گئی تھی ۔۔۔۔۔کبھی اپنی خوشیوں میں کبھی اپنے غموں میں ۔۔۔۔۔۔مجھے سميٹ لے ۔۔۔۔۔۔اسے کچھ یاد نہیں رہا اسے کیا پڑھنا تھا ۔۔۔۔کتنا قیام؟ کتنے رکوع؟ وہ تو بس سجدے میں پڑی تھی حاضر تھی اپنے رب کے حضور ۔۔۔۔۔روتی بلکتی ۔۔۔۔۔۔نا جانے کتنا وقت ایسے ہی گزر گیا ۔اب وہ چپ تھی سکون میں تھی جیسے روتے بلکتے بچے کے سر پر کوئی شفقت کا ہاتھ رکھ دے اور اس کا سارا دکھ جذب کر لے ۔۔۔۔۔۔جانے کتنے عرصے بعد اس نے نماز پڑھی تھی ۔دل و دماغ پر چھایا سارا غبار چھٹ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اسے اپنا آپ بہت ہلکا پھلکا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے اندر کوئی اسکی واپسی پر مسکرا رہا تھا ۔
پر وہ آواز……. وہ کس کی تھی….. نیند کی وادی میں قدم رکھنے سے پہلے اس نے آخری بار سوچا……..
از قلم ،”عظمیٰ خرم “