حیات از قلم عظمیٰ خرم
#پری_اپرووڈ
#حیات_پارٹ_23
بختاور نے بڑے ہی سالوں بعد خود کو شیشے میں دیکھا تھا…… اسے وہ ایک ایسی عورت کا عکس لگا جو ایک عرصہ ننگے پاؤں آبلہ پا،بھوک پیاس سے بے نیاز،بکھری بکھری سی منزل پر پہنچی ہو…… اس نے اپنے عکس پر ہاتھ پھیرا،گویا اسے پچکارنا چاہتی ہو….. اپنے چہرے کے گمشدہ خدوخال کو اپنی انگلیوں سے مس کیا…..
زندگی نے کیسے مقام پر لا پھینکا تھا…. اس کا وجود خود اس کے لئے اجنبی تھا……. ایسا لگا پلک جھپکنے کے مختصر عرصے میں اس کی جوانی ایک جست لگا کر بڑھاپے کی دہلیز لانگ گئی تھی گویا……. اور اس کی آنکھیں…….
“بختو!تجھے پتا ہے تیری ہلکی بھوری آنکھیں……. کتنی پیاری ہیں اور میں بتا نہیں سکتا……”
تبھی اسے زاہد کے رونے کی آواز آئی اور وہ جو اپنی تعریف سن کے شرم سے دھری ہوئی جا رہی تھی،موقع غنیمت جانتے باہر صحن میں بھاگ گئی….
پر اس واقعہ کے بعد جب بھی وہ شیشہ نہارتی،وہ اپنی آنکھیں غور سے دیکھتی…… اتنے غور سے کہ چہار سو بس اس کی بھوری آنکھیں پھیل جاتیں،ہر چیز کو گھیر لیتیں،ہر شے پر چھا جاتیں……. حشمت کی اس تعریف کے بعد اس کی یہ حالت تھی کہ چاہے چار دن کپڑے نا بدلتی،بکھرے بال سمیٹتی نا سمیٹتی پر منہ دھو کےآنکھوں میں بھر بھر کے کاجل ڈالتی……. پر اتنے سال گزر جانے کے بعد اس ادھوری بات کی تشنگی نہ جاتی تھی کہ الله جانے زاہد کے ابا اور…… کیا کہنا چاہتے تھے میری آنکھوں کے بارے میں……
پھر وہ وقت آیا جب احد کی پیدائش پر حشمت آگ کا دریا پار کر آیا تو ایک دن شیشہ نہارتی اسے پھر سے وہ بات یاد آ گئی….. اس نے فورا اپنے دوپٹے کے پلو کو گرہ باندھ لی……. پر بچوں کے جھمیلے میں پھر بھول گئی…….. صبح لیٹرینوں کے باہر ہمیشہ کی طرح لمبی قطاروں میں کھڑے ادھر ادھر کی باتوں میں وقت گزاری کرتے اچانک نوراں کی نظر اس کی لگائی ہوئی گانٹھ پر پڑ گئی،”اے بختو!خیر ہے? تو کچھ بھول تو نہیں رہی یہ تیری چنی کے پلو پر کل سے گانٹھ لگی ہے…. کھولی نہیں تو نے? “
بختو نے نوراں کی یاد دہانی پر اپنی چنی کی گانٹھ کو دیکھا….. “ہاے ہاے گرہ لگائی تھی پر دیکھو تو میرا دماغ…. پھر سے بھول گئی… تیرے بھا جی سے ایک بات پوچھنی تھی”
نوراں نے بختو کو حیرانی سے دیکھا “یقینا کوئی بہت ضروری بات ہو گی….. بات تو یاد ہے نا تجھے “
“ہاں ہاں یاد ہے… بہت ضروری بات ہے تو ایسا کر میرا لوٹا پکڑ میں ذرا زاہد کے ابا سے بات کر کے آئی -“
نوراں پریشان کہ ضرور کوئی بہت ہی ضروری بات ہو گی جو جھلی اپنا لوٹا مجھے پکڑا کے بھاگی ہے…. الله خیر کرے… نوراں نے مڑ کر بختاور کو دیکھا جو اب مردوں کے قطار کے پاس کھڑی, “زاہد کے ابا!زاہد کے ابا “
پکار رہی تھی…..
حشمت بختاور کی بیقرار پکار پر اپنا لوٹا وہیں زمین پر رکھ کے پریشانی سے بھاگا آیا،”ہاں بول!سب خیر ہے “
بختاور نے اپنا سانس بحال کیا اور بولی “ہاں جی سب خیر ہے پر ایک ضروری بات پوچھنی تھی آپ سے “
حشمت پریشان کہ ایسی کیا ضروری بات کہ جو گھر جا کے نہیں ہو سکتی…. حشمت نے پریشانی سے دائیں بائیں دیکھا اور اسے مزید بولنے کے لئے سر اور آنکھوں سے اشارہ کیا…..
“وہ آپ کو یاد ہے جب زاہد چھوٹا تھا تب ایک دن گاؤں والے چھوٹے کمرے میں آپ نے میری بھوری آنکھوں کی تعریف کی تھی”…….(بختاور نے بات کرتے لجا کر دوپٹے کے پلو سے منہ چھپا کے بھوری آنکھیں چھپکا کے حشمت کو دیکھتے ہوے پوچھا )
حشمت نے بختاور کو ایسے دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو…. ہاں کہا ہو گا تو……..?آگے………?اب کیا…..?
“تو اس وقت آپ نے کہا تھا بختو میں بتا نہیں سکتا کہ…….اور بات ادھوری چھوڑ دی تبھی زاہد رو پڑا اور میں باہر بھاگ گئی….. پر وہ بات انی کی طرح میرے کلیجے میں گڑھ گئی کہ جانے آپ کیا کہنا چاہتے تھے،بسس وہی پوچھنی تھی “
بختو کے بات مکمل کرتے ہی غصے اور ناگواری سے حشمت کے خدوخال بھنچ گئے……وہ چبا چبا کے بولا “ویلے سر نماز تے کویلے سر ٹکراں……..یہی کہا ہو گا کہ تجھے بتا نہیں سکتا کہ تیری آنکھیں اور عقل دونوں ہماری مج جیسی ہیں…… گہری…..موٹی……..گھپ اندھیرے میں گم, اب جا جا کے دیکھ تیری باری بھی نکل گئی اور میری بھی “-
بختاور کو اس جواب کی بلکل توقع نہیں تھی….. اس نے منہ بنا کے یہ بات سنی اور اپنی قطار کی جانب واپس لوٹ گئی جہاں اسے لوٹا لے کر پھر سے کھڑا ہونا تھا.
شیشہ نہارتی….. بختاور نے ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا تو یہ بات یاد آتے ہی اس کی ہنسی قہقہے میں بدل گئی –
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
خدارا چھین لے حافظہ میرا
اسے اس طرح ہنستا دیکھ کر یاسمین اندر آ گئی…..
آج اسے وجاہت پہلی بار باہر کھانا کھلانے لے جانا چاہتا تھا…. اس نے بختاور کے لئے نہایت نفیس کڑھائی والا جوڑا بھیجا تھا…… بختاور نے یاسمین سے جوڑا لے کر داد دیتی نظروں سے وجاہت کے ذوق کو سراہا…..
کافی عرصے سے اس نے اپنی ذات پر رنگوں کے دروازے بند کر لئے تھے،اس کی زندگی کا ظاہر سفید اور باطن کالے رنگ میں مقید ہو کر رہ گیا تھا –
بختاور نے سوچ لیا تھا کہ وجاہت کی صورت میں جو قسمت اس پر مہربان ہوئی ہے تو وہ اسے ماضی کی تلخ یادوں کی وجہ برباد نہیں کرے گی –
اس نے یاسمین کو مہندی گھول کر لانے کو کہا….. باہر صحن میں دیوار پر شیشہ ٹانگے وہ سر پر مہندی لگانے میں مصروف تھی… یاسمین نے لاکھ کہا کہ وہ لگا دیتی ہے پر آج بختاور ہر کام خود کرنا چاہتی تھی الله نے اس پر کرم کیا تھا لوگوں کی محتاجگی سے بچایا تھا…. تبھی وجاہت اندر آیا…. بختاور کو یوں مہندی لگاتے دیکھ کر اسے خوشگوار حیرت ہوئی…. اپنی چاے لئے وہ وہیں برآمدے میں کرسی پر بیٹھ گیا اور اسے دیکھنے لگا….. پھر وہ اچانک اٹھا اور ایک دم بختاور کے سامنے جا کھڑا ہوا…. بختاور اس کی اس طرح آمد سے گڑبڑا سی گئی… اس سے پہلے کہ وہ سمجھ پاتی وجاہت نے ہاتھ بڑھا کے اس کے ماتھے پر لگی مہندی اپنی انگلی کی پور سے پونجھ ڈالی اور اپنے سر کے بالوں سے صاف کر لی اور چلتا بنا –
بختاور جو اس کے ایسے چھو جانے سے بدک گئی تھی ہونق بنی کھڑی کی کھڑی رہ گئی…. اسے وجاہت سے اس بے باکی کی توقع نہیں تھی –
کچے لیموں کے رنگ کا جوڑا اس پر خوب سج رہا تھا،چہرے پر سنہرے فریم والی عینک جس نے اس کا دھندلا پن بلکل ختم کر دیا تھا،ہاتھوں میں سادہ سے گنگن، کندھے پر ہلکی سی شال اور سر پر دوپٹہ لئے وہ کسی ملکانی سے کم نہیں لگ رہی تھی – وجاہت کی تو اس پر سے نظر ہی نہیں ہٹ رہی تھی،یاسمین بھی ہکا بکا تھی –
کھانے کے بعد وجاہت اسے بازار لے گیا،سب کچھ کتنا بدل گیا تھا…… اس نے وجاہت کا دل رکھنے کو تھوڑی بہت خریداری کر لی –
اگلے ہفتے ان کی حج کی فلائٹ تھی – بختاور عجیب کیفیت کے زیر اثر تھی…… جو حاضری وہ دینے جا رہی تھی اس ملک کل کائنات کی عظمت اور اپنے اوپر کرم کا سوچ سوچ کر وہ اس کی محبت میں گندھی جا رہی تھی…… جہاز میں بیٹھتے وقت اس کی حالت خراب ہو گئی….. چہرے کا رنگ متغیر ہونے لگا….. یا الله!کیا میں سچ میں اس قابل تھی? کہ تو مجھے اپنی چوکھٹ پر بلاتا…… میں تو ساری عمر اپنے جھمیلوں میں رہی کبھی تجھے دل لگا کے یاد نہیں کیا….. پھر بھی میرے مولیٰ تو نے مجھ گناہگار کو اتنے لاکھوں کروڑوں لوگوں پر برتری دی…… یہ سوچیں اسے بار بار آبدیدہ کر دیتیں……. یا الله پاک ایک التجا ہے…… سنا ہے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے جب کوئی شخص جاتا ہے تو انہیں اس شخص کی ساری کرتوتیں پتا ہوتی ہیں….. تو میرے مولیٰ تجھ سے تو کسی بات کا پردہ نہیں ہو بھی نہیں سکتا پر اپنے حبیب کے آگے مجھ گناہگار کا پردہ رکھ لینا -“
وجاہت اس کے دل کی حالت سے آگاہ تھا….. اسے یوں بے آواز روتا دیکھ کر بولا….. “کملی ہو گئی ہو تم کیوں روتی ہو،اب تو سب ٹھیک ہو گیا ہے….. تمہارے ساتھ تمہارے دونوں “خدا “بھی ہیں -“
بختاور نے بدک کر وجاہت کو دیکھا “چوہدری صب کس طرح کی بات کر رہے ہیں آپ خدا تو ایک ہی ہوتا ہے توبہ استغفراللہ “
بختاور کے نا گواری والے تاثرات دیکھ کر وجاہت کے چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ چھا گئی…. “دو خدا،مجازی،حقیقی “
اب ہنسنے کی باری بختاور کی تھی-
کمرے میں سامان رکھتے ہی وہ عمرہ کرنے چل پڑے……. بختاور کا دل بے قابو ہو رہا تھا…. اور پھر وہ لمحہ آ گیا جس کا اس نے جانے کب سے انتظار کیا تھا…… کعبے پر پہلی نظر پڑتے ہی اس نے وجاہت کا ہاتھ چھوڑ دیا….. الله اس نظر کی بھیک تو مانگی تھی تجھ سے…….. تیرا گھر نہ دیکھ پاتی تو بتا مجھ سے بڑا بد نصیب اور کون ہوتا….. یہ منظر دیکھنے کے لئے تو میں دنیا میں آئی تھی….. یہ نہ ہوتا تو میں بھی نہ ہوتی….. روتے روتے گردوپیش سے بے نیاز وہ کعبے کو دیکھ کر گھٹنوں کے بل گر گئی….. یا الله مجھے معاف کر دے… یا الله مجھے معاف کر دے….. مجھے تیرے سوا اور اپنی معافی کے سوا کچھ یاد نہیں…. غفار بھی یہیں گناہگار بھی یہیں….. بس تو مجھے معاف فرما دے،مجھے کوئی دعا یاد نہیں مجھے اور کوئی زی روح یاد نہیں بسس تو مجھے معاف کر دے اپنے حبیب کے صدقے…. پھر میری کامیابی ہے…. پھر مجھے سب خود بخود مل جائے گا…… اس کی آہوں،سسکیوں کی کوئی حد نہیں تھی….. جانے کتنا وقت وہ روتی رہی….. کیسے طواف کیا…. کچھ یاد نہیں رہا اسے…. ہاں پر سعی کے لئے جاتے وقت زم زم کو گھونٹ گھونٹ اتارتے وقت اسے لگا….. بپھرا سمندر شانت ہو گیا جیسے…… اتنا سکون……. ایسی عافیت تو اس نے کبھی بھی نہیں محسوس کی……. سعی کرتے وقت وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح خوش تھی….. تب اسے اپنے سب بچے یاد آے….. اس نے سب کے لئے دعا کی پر زاہد کا نام آتے ہی اس کی زبان اور دل دونوں سخت ہو جاتے….. بس زاہد کا خیال آتا اور وہ رو پڑتی…… اسے احد یاد آیا تو اس نے دعا کی کہ کاش اس کا بیٹا یہاں ہوتا تو اسے خوش ہوتا دیکھ کر کتنا خوش و مطمین ہوتا….. جانے کیوں اس نے خواہش کی کہ وہ حرم کے صحن میں بیٹھی ہو اور احد اس کی گود میں سر رکھ دے اور وہ اپنے بیٹے کے لئے رب سے ہر خوشی ہر آسانی مانگ لے….. اس نے قدم با قدم چلتے روشن چہرے والے چوہدری وجاہت کو دیکھا…… اس کا دل اطمینان سے بھر گیا….. یہ بھی تو اسکے بیٹے کا تحفہ تھا اس کے لئے…..
آخری نفل پڑھتے ہی وہ کعبے کی جانب ایسے بھاگی جیسے بچہ سکول سے چھٹی کے بعد ماں کی طرف لپکتا ہے…. اسی حرص،اسی بچھڑی محبت کو دل میں لئے وہ بےتابی سے کعبے سے لپٹ گئی یا شائد کعبے کی مقناطیسیت نے اسے کھینچ لیا…. دونوں ہاتھ کعبے کی دیوار پر پھیلاے اس کے نرم ٹھنڈک والے پتھر سے گال لگاے وہ پھر بلک بلک کر رو دی…. جانے یہ سیلاب اس کے اندر کہاں سے امڈ آیا…. اس نے ٹنڈ منڈ کالے پتھروں پر ہاتھ پھیر کر ان کی ملائمتا محسوس کی –
حطیم میں اس کے سجدے لمبے ہو گئے…… اس نے فرش کو چوما کہ یہاں کبھی الله کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ کیا ہو گا اپنے پاؤں مبارک رکھے ہوں گے…. روتے روتے سجدے سے اٹھ کر بیٹھی تو ساتھ ہی کسی نے اس کی گود میں اپنا سر رکھ دیا…… اس نے شدید حیرت سے دیکھا….. وہ احد تھا جو رو رہا تھا….. اس نے شکر گزاری سے سلام پھیرا اور بیٹے کے ایسے ملنے پر رو دی…… زیادہ رونا اسے اس بات پر آ رہا تھا کہ ابھی سوچا اس نے اور ابھی الله نے اس کے دل کی خواہش پوری بھی کر دی….. “اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے “
احد اور یمنہ ایک دن پہلے ہی سعودیہ پہنچ گئے تھے….. پھر جیسے ہی انہیں وجاہت اور بختاور کے آنے کا پتا چلا وہ بھی مکّہ پہنچ گئے….. وجاہت کو ان کے آنے کا پتا تھا پر اس نے بختاور کو نہیں بتایا تھا بلکل ایسے ہی جیسے احد کو بختاور کی بینائی واپس آنے کا نہیں بتایا تھا….. دونوں کے لئے بہترین سرپرائز تھا…..
لندن جا کے یمنہ کے سارے ٹیسٹ کئے گئے جن سے پتا چلا کہ ایک “نئی زندگی “اس میں پنپ رہی ہے جس کی وجہ سے اس کا مدافعتی نظام ٹھیک کام نہیں کر رہا تھا اور اسے وائرل انفیکشن ہو گئی تھی -رپورٹس کلیر آنے پر احد اور یمنہ نے سکھ کا سانس لیا -بختاور کے لئے یہ بہت بڑی خوشخبری تھی -ڈاکٹرز یمنہ کو حج پر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے پر یمنہ نہیں مانی وہ اس جھٹکے سے پہلے سے احد کے ساتھ کی حریص تھی،اسی لئے اس نے احد کو قائل کر لیا کہ وہ اسے بھی حج کرواے اور خود بھی کرے وجاہت جیسے ہی حرم سے ہوٹل پہنچا تو یہ دیکھ کر تسلی ہوئی کہ بختاور سو رہی ہے،پھر بھی اس نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بخار کا اندازہ کرنا چاہا،بخار ابھی بھی تیز تھا،جانے اس نے دوائی کھائی بھی تھی یا نہیں? صبح ہونے میں ابھی وقت تھا،تبھی اچانک بختاور نیند سے اٹھ بیٹھی،اس نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا تھا -وجاہت نے اسے تسلی دی اور اسی بہانے دوائی کھلا دی -انہیں اگلے دن منی روانہ ہونا تھا اور اسی لئے بختاور کا ٹھیک ہونا بہت ضروری تھا -وجاہت نے پریشانی سے اس کی نڈھال سی حالت دیکھی –
سارا دن بختاور بخار میں جلتی رہی،عجیب سی حالت تھی بخار اتر بھی جاتا پر جسم کے اندر باہر سینک ختم نہ ہوتا – جیسے ہی اس نے عصر کی نماز ختم کی تو احد اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا وہ کعبے سے باتیں کرنے میں مصروف تھی احد کے آنے پر اس نے احد کی طرف نظر کی اور وہ نظر پلٹنا بھول گئی……..
دو دن سے وہ جس انجانی آگ میں جل رہی تھی،اس کے ڈراؤنے خواب کی تعبیر احد کے چہرے پر رقم تھی –
احد بے تحاشہ رو رہا تھا……. اس کا احد تو بڑے صبر والا تھا پھر بھی رو رہا تھا…. بختاور نے انتظار کیا کہ وہ خبر سناے جس کی خبر اسے پہلے سے ہو چکی تھی….. تبھی احد نے روتے روتے ہچکیوں سے ماں کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے…. “بےبے زاہد بھائی……. زاہد بھائی کو معاف کر دے -”
اور بسسس بختاور کی آنکھ بھر گئی،آنسو پلک پر ٹھہر گیا اور لڑکھ گیا………
“انّا للہ وا انّا الیہ راجعون “
بختاور اٹھ کے حرم کے صحن سے گزر کے طواف کے ہجوم میں گم ہو گئی….. احد پیچھے جانا چاہتا تھا پر وجاہت نے اسے روک دیا……..
حج کے سارے مناسک بہت اچھے سے ہو گئے تھے -وجاہت نے بختاور کو اپنے حصار میں لئے رکھا -پر اب اسے چپ سی لگ گئی تھی…….. بیٹھے بیٹھے سوچوں میں گم ہو جاتی –
دروازہ زور سے ڈھردہڑایا جا رہا تھا…… “کتنا دیر کر دیتی ہے تو دروازہ کھولنے میں “
زاہد نے دونوں ہاتھوں میں اٹھاے ہوے سامان کے ساتھ صحن پار کیا اور کمرے میں چلا گیا –
آسیہ نے اس کے لاے ہوے سامان کو کرید کر دیکھا….. “یہ کیا اٹھا لاے ہو اتنے سارے پتلون کوٹ?”
زاہد نے اس کے ہاتھ سے کوٹ پکڑ کے دوبارہ گٹھڑی میں رکھتے ہوے کہا “جاہل عورت تجھے کیا پتا…… کاروبار ہے یہ کاروبار….. تم دیکھنا ایک دن میرا اپنا ڈرائی کلین سنٹر ہو گا،کتنے لوگ اس میں کام کریں گے….. اور میں ان کا صاحب بن…..” آسیہ نے اسے ٹوکا،”بسس بس،ہنہ پہلی بار سنا ہے کہ کوئی دھوبی بننے کے بعد صاحب بنے گا ” زاہد نے غصے سے اسے کمرے سے باہر جاتا دیکھا،ایسی عورتوں کی وجہ سے مرد ترقی نہیں کر پاتا،جاہل…..
زاہد کو اس کے دوست نے بتایا کہ آج کل صاحب لوگ کپڑے صابن سے نہیں دھلواتے بلکہ تین گنا زیادہ پیسہ دے کر “ڈرائی کلین “کرواتے ہیں یعنی پیٹرول سے کپڑے دھلواتے ہیں اور اس سے داغ بھی فٹافٹ نکل جاتے ہیں، بسس تبھی اس نے بھی کچھ لوگوں سے پتلون کوٹ حاصل کئے تا کہ وہ بھی زیادہ پیسہ کما سکے –
زاہد نے کمرے کے بیچو بیچ ایک بڑی بالٹی رکھی اور اس میں پیٹرول ڈال کے ایک کوٹ کو بھیگو دیا،جیسا کہ اس کے دوست نے بتایا تھا کہ کچھ وقت انتظار کے بعد کوٹ کو پیٹرول سے نکال لینا ہے…. پر زاہد نے سوچا ایسا کیسے جب تک اسے اچھی طرح ملیں گے نہیں پیٹرول میں نتھاریں گے نہیں صاف کیسے ہو گا،لہٰذا اس نے کوٹ کو ملنا اور شپڑ شپڑ بالٹی میں اوپر نیچے ہلانا شروع کر دیا بس وہی لمحہ،لمحہ آخر ثابت ہوا اور تبھی باہر صحن میں روٹی پکاتی آسیہ نے عجیب منظر دیکھا چولہے سے آگ نکلی اور اس نے ہوا میں تیرنا شروع کر دیا اور ہوا میں تیرتے تیرتے پلک جھپکنے کے بھی کم وقت میں اس آگ نے پیٹرول سے بھری بالٹی اور زاہد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا….. آسیہ یہ دیکھتے ہی زاہد کو بچانے بھاگی پر کوئی فائدہ نہ ہوا…………..
زاہد کی ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی موت ہو گئی اور آسیہ چالیس فیصد سے زیادہ جل گئی تھی……….
دارلحجاج سے گھر آتے ہی جو شخص بختاور کے پیروں میں گر گیا وہ حامد تھا…….. حامد اور نشو نے بختاور سے رو رو کر اپنی ہر غلطی کی معافی مانگی،
“جب میرے رب نے مجھے معاف کر دیا تو میری کیا اوقات کہ میں تم لوگوں کو معاف نہ کروں،میری دعا ہے کہ الله بھی تمہیں معاف کر دے “
زاہد کی قبر پر بختاور کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے……
زاہد کے ذہنی بیمار بچے کو احد نے گود لے لیا تھا،آسیہ ابھی ہسپتال میں زیر علاج تھی –
علاج کے بعد وہ بختاور کے پاس گئی پر بختاور نے اسے ملنے سے انکار کر دیا،”میں اسے معاف کر چکی ہوں جیسے اپنے بیٹے کو کیا پر میرا ظرف اتنا بڑا نہیں کہ اپنے گھر میں جگہ دے دوں….. مانا کہ میرا سکہ کھوٹا تھا پر ہر سکے کو کھرا کرنے کا ہنر الله نے بیوی کو دیا ہوتا ہے….. پر تم نے کوشش ہی نہ کی….. تمہیں اس کے کھوٹے پن میں ہی اپنا فائدہ نظر آیا…. بیوقوف عورت جو ماں،بہن کی عزت نہیں کرتا وہ کبھی کسی عورت کی نہیں کرتا چاہے وہ اسکی بیوی ہی کیوں نہ ہو -“
آسیہ کے میکے والوں نے بھی اسے رکھنے سے انکار کر دیا…. نشو نے اسے پناہ تو دی پر ایک نوکرانی کے طور پر….. دو وقت کی روٹی اور دن رات کی چاکری سودا برا نہ تھا –
وقت گزرتا گیا….. الله نے احد اور یمنہ کی جھولی میں “این اے “یعنی،”نمرہ احد “کو ڈال دیا –
احد کے گویا ہواؤں میں اڑنے لگا……
بختاور اور وجاہت کو لندن میں قیام کے دوران یہ خوش خبری ملی……
بختاور اب بختو نہیں تھی…..”بختاور بیگم ” بن چکی تھی –
احد سلطان نے اپنی نیک دل فطرت کی بنا پر” چائلڈ پروٹیکشن بیورو ” کے نام سے یتیم،بے سہارا بچوں کے لئے ادارہ بنا لیا -کیوں کہ جب وہ خود یتیم خانے میں تھا تو اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ زندگی اسے وسائل دے گی تو وہ کم از کم ایک یتیم بچے کو گود لے گا….. اسے صرف پیسہ ہی نہیں باپ کی شفقت بھی دے گا –
“چاے پڑی پڑی ٹھنڈی ہو گئی،ایسا بھی کیا انہماک کہ لکھتے ہوے بندا خود کو ہی بھول جائے “
اس نے بنا ناگوار تاثر کے کپ اٹھا لیا……. “باہر آ جایں،میں گاڑی میں انتظار کر رہی ہوں قبرستان جانا ہے نا “
جانے اس نے پوچھا تھا یا بتایا تھا…… خیر کیا فرق پڑتا ہے –
وہ دونوں قبرستان میں کھڑے فاتحہ پڑھ رہے تھے……….
اسے پتا تھا اب یہ واپس جانے سے پہلے دو منٹ قبر کے سرہانے بیٹھے گا اس پر ہاتھ رکھے گا اور پھر واپسی……..
دعا ختم کرتے ہی وہ دو قدم آگے بڑھا،سرہانے والی طرف بیٹھا اور مٹی پر ایسے ہاتھ پھیرا جیسے اس کے چہرے کو چھونا چاہتا ہو….. “اچھا نہیں کیا تم نے میرے ساتھ…….. بیکار بنا دیا تمہارے عشق نے…….. تمہیں کھو دینا وہ خسارہ ہے “یمنہ ضمیر “جو میری ساری زندگی پر بھاری ہے -“
بچی کی پیدائش کے فورا بعد یمنہ کی حالت بگڑنے لگی…… کینسر پھیل چکا تھا……. یمنہ نے یہ اولاد جان پر کھیل کر پیدا کی تھی،وہ جانتی تھی کہ اگر احد کو اصل بات پتا چل گئی تو وہ اسے کبھی ماں بننے جیسا رسک نہیں اٹھانے دے گا…. اسی لئے اس نے احد کو سب اچھے کی رپورٹ دی….. پر وہ جانتی تھی کہ اس کا وقت ختم ہونے والا ہے….. اور پھر چار ماہ کی نمرہ کو چھوڑ کے وہ چلی گئی آخر،ہمیشہ ہمیشہ کے لئے –
وہ ہاتھ جھاڑتے اٹھ کھڑا ہوا…..
شیریں گاڑی میں انتظار کر رہی تھی….. احد کے بیٹھتے ہی اس نے گاڑی دوڑا دی، گھر آ چکا تھا شیریں گاڑی سےاتری اور بنا کسی تاثر کے اسے دیکھتے ہوے بولی ، “اوکے!ٹیک کیئر کل ملتے ہیں،الله حافظ -“
وہی روز کی روٹین،روز کے جملے….اس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور میوزک آن کر دیا،” اس کے دل پر بھی کڑی عشق میں گزری ہو گی
نام جس نے بھی محبّت کا خدا رکھا ہے “
یمنہ کی وفات کے بعد سب کچھ بدل گیا تھا،احد کو لگتا تھا اس کے جینے کی وجہ ختم ہو گئی ہے…… پھر ایک دن بختاور اسے اپنے ساتھ یتیم خانے لے گئی،وہاں بچوں کے ساتھ وقت گزار کے،پرانی یادیں تازہ ہو گئیں اور تبھی اس نے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی بنیاد رکھی – اس بنیاد نے جہاں اس کا ایک یتیم بچہ پالنے کا خواب پورا کیا وہاں یمنہ کی یاد کے زخم بھی بھرنے لگے –
ایک دن وہ راؤنڈ پر آیا تو ایک ٹیچر جو بچوں کو کہانی سنا رہی تھی اس کی آواز نے اس کا دھیان اپنی جانب کھینچ لیا…… اور اس آواز کو تو وہ ہزاروں میں پہچان سکتا تھا……. پر حیرانی کی بات یہ تھی کہ شیریں اتنی کم تنخواہ والی نوکری کیوں کر رہی تھی بلکہ سوال تو یہ بنتا تھا کہ شیریں اور نوکری………???? نااااا……
تحقیق پر پتا چلا کہ کہ ملک صاحب کی فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی تھی اور وہ اس صدمے کو سہہ نہ سکے….. شیریں کا شوہر پہلے ہی موقع کی تاک میں تھا اس نے سب کچھ سمیٹا اور کینیڈا رو پوش ہو گیا اور جاتے جاتے شیریں کو طلاق دے گیا -گھر میں اب بس شیریں اور اس کی والدہ رہ گئی تھیں اور اسی اسکول کی نوکری سے ان کا گزارا چل رہا تھا –
احد نے شیریں کی تنخواہ بڑھا دی تھی، پر اسے یہ پتا نہیں چلنے دیا کہ احد اس کے نقاب کے پیچھے کا چہرہ پہچان چکا ہے –
پر تبھی بختاور نے اسے پہچان لیا…… شیریں بختاور کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی……. اس کی پشیمانی اس کا حال دل کھول گئی –
پھر بھی بختاور نے اسے پرانی کوئی بات نہیں جتائی –
لندن واپس جانے سے پہلے بختاور نے شیریں پر مزید ذمہ داریاں ڈال دیں جن میں ادارے سے چھٹی کے بعد گھر کے،احد اور نمرہ کے سارے معاملات کی دیکھ بھال کرنا شامل تھا –
ایک لمحے کو شیریں کو لگا کہ شائد…… احد اسے پھر سے اپنانا چاہتا ہے…… پر اس کی خوش فہمی جلد ہی دور ہو گئی،وہ سمجھ گئی تھی کہ دونوں ماں بیٹا ایک جیسے ہیں بلکل …….
اور یہ بات تو بختاور بھی اچھے سے جانتی تھی….. احد سلطان اس کا بیٹا تھا….. “وہ معاف کر دینے کا،حسن سلوک کرنے کا قائل تھا پر مدمقابل کو دوسرا موقع دینے کا قائل ہرگز نہیں تھا –
“میں ہوں بختاور اور یہ تھی میری کہانی،اب یہ آپ پر ہے کہ بتا سکیں کہ کیا میں سچ میں “بخت آور “ہوں یا نہیں?
________ختم شد ________
از قلم “عظمیٰ خرم “