خط………….مریم فاروق
تسلیمات کیسے ہو ؟؟ سنا ہے اوروں کے ہاں لمبا قیام کیا ! ہمارے ہاں سے تو گویا ایسے بھاگے مانو ریل چھُوٹ رہی ہو. چلو اچھا ہوا، جب جانا ہی ٹھہرا تو کیا کل اور کیا آج. کُوچ کرنے میں کتنا سماں لگا ،گھڑیاں کون گنتا ہے. الوداعی ہاتھ کتنی تیزی سے نظروں سے اوجھل ہوا یہ بھاگتے قدم کیسے جان پائیں. خیر جتنا بھی قیام تھا بھرپور تھا. خوشیوں کے پل تمہارے ہمراہ تھے. تب سورج کی روشنی چبھتی نہیں تھی نہ ہی سردیاں منجمد کِیا کرتی تھیں. سوچوں تو ابھی کل ہی کی بات معلوم ہوتی ہے. تم تو جانتے ہی ہو گے وہ ابا مرحوم کے ساتھ گزارے شب و روز، وہ بے پرواہ دوستوں کی سنگت، وہ پہروں ہنسنا اور آنکھوں میں پانی جھلملانے لگتا تو قہقہوں پہ پہرے بٹھانے، وہ سکون بھری نیند سونا بھلے صُور پھونکا جاتا. کیا کیا نہ جھلملاتا ہے ذہن کے پردوں پر.پر تمہیں اس سے کیا. یہ سب چیزیں تو تمہارے ساتھ یوں رُخصت ہوئیں کہ پیچھے مُڑ کے نہ دیکھا. دیکھو اب یہ نا کہنا کہ یاد نہ کیا کرو، دُہرایا نہ کرو، ماضی میں کیا رکھا ہے . لیکن میں تو یاد کروں گی اُن سب گزرے پَلوں کو.عادت ہے تو ہے. اس سے چھٹکارا کہا ں ممکن ہے. تم بھلے ہی پکڑائی نہ دو. اے میرے ‘ ایام گزشتہ’ رُتوں کے بدلنے میں کبھی پھر یہاں سے گزرنا ہو تو چکر لگانا. سب کچھ تو ویسا ہی ہے اور اگر کچھ بدل بھی گیا ہو تو آکر ٹھیک کر دینا کہ سب تمہارے ہاتھ میں ہی تو ہے. اس امید کھ ساتھ اختتام کرتی ہوں کہ نامہ بر کی بجائے تم خود آؤ گے. اللہ حافظ ( بنام ایام گزشتہ )