لکھ یار

آ نسو………انعم سجیل

25276608_10213461854275001_565024855_n۔۔۔ میرے نزدیک آنسو اللہ تعالی کی عطا کردہ بہترین نعمتوں میں سے ہیں۔۔۔ آنسو نہ ہوتے تو زندگی بھی بھلا کوئی زندگی ہوتی؟؟ انسان دکھی ہو تو آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ کر اس کے دل سے بھیسب غم و الم بہا لے جاتے ہیں۔۔۔ خوشی کے موقع پر بھی پہلی چیز جو آپ کے ساتھ ہوتی ہے وہ یہ آنسو ہی ہوتے ہیں۔۔۔ کبھی گلے شکوے کے اظہار کے لیے تو کبھی دیرینہ خوشی کے حصول کے وقت شکرانے کے طور پر۔۔ کبھی ضبط کی انتہا تو کبھی حدوں کو چھوتا غصہ بھی آنکھوں میں آنسو لا سکتا ہے۔۔۔آنسو نہ ہوں تو انسان اپنے اندر کے بڑھتے غبار کے بوجھ سے ہی مر جائے۔۔۔ غرضیکہ آنسو انسان کے دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں۔۔ دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگوں کے آنسو ان کی پلکوں پر دھرے ہوتے ہیں۔۔ ادھر کوئی بات ہوئی نہیں، ادھر آنسو پلکوں کی گھنی باڑ (باڑ پتلی بھی ہو سکتی ہے) توڑتے ہوئے گلابی عارضوں پر بہہ نکلتے ہیں۔۔۔ ایسا عموما” خواتین کے ساتھ ہوتا ہے۔۔ جبکہ مرد حضرات اپنے آنسوؤں کو اپنی آنکھوں کی پتلیوں میں ہی جذب کر لینے کے ہنر میں ماہر ہوتے ہیں کہ مبادہ ان آنسوؤں کی بغاوت ان کی مردانگی پر چوٹ لگنے کا سبب نہ بن جائے۔۔۔ میرے نزدیک آنسو بذات خود اس قسم کی کسی تخصیص کے قائل نہیں ہوتے ہیں۔۔ یہ تو بس معاشرے کے چلن نے انسان کو ایسی باتیں سکھا کر آنسوؤں کو قیدی بنا دیا ہے۔۔۔۔ ویسے آنسوؤں کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔۔۔ جن میں سب سے مشہور قسم “مگرمچھ کے آنسو” ہے۔۔۔ یہ قسم بھی زیادہ تر خواتین میں پائی جاتی ہے۔۔۔ ساس بہو کی آپسی چپقلش میں جب مرد کو ثالثی بنایا جاتا ہے تو خود کو دوسرے سے بڑھ کر مظلوم ثابت کرنے کے لیے دلائل سے زیادہ انہی آنسوؤں کا سہارا لیا جاتا ہے۔۔ اور مرد بیچارہ ان مگرمچھی آنسوؤں کو دیکھ دیکھ کر خود کو ایک مگرمچھ ہی سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔۔۔ مقدمہ کا فیصلہ کس طرح کیا جاتا ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔۔۔ اپنی بات کروں تو بتاتی چلوں کہ مجھے بچپن سے ہی آنسوؤں سے بڑی محبت تھی۔۔۔ بات بے بات آنسو بہانا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔۔ کسی کی اونچی آواز بھی مجھے بے تحاشہ رلانے کے لیے کافی ہوتی تھی۔۔۔ لیکن ایک بات مجھےان پانچ سالوں میں اب تک سمجھ نہیں آ سکی کہ اپنی رخصتی کے وقت میرے ساتھ ساتھ رہنے والے آنسو جانے کہاں چلے گئے تھے۔۔۔ اپنے تئیں میں نے آنکھیں بند کر کے نئے، پرانے ،چھوٹے ، بڑے سارے دکھ یاد کر کے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا تھا کہ دو چار موتی ہی ٹوٹ بکھریں لیکن نا جی۔۔۔ ان آنسوؤں نے عین وقت پر دغا دے دیا۔۔۔ جس کا افسوس مجھے آج بھی ہے۔۔۔ بھلا کیا جاتا ان کا اگر مل ہی لیتے مجھے کچھ دیر کو۔۔۔۔ خیر۔۔ ان کی مرضی۔۔ نہیں تو نا سہی۔۔ ویسے تو آنسو موقع دیکھتے ہیں نا جگہ۔۔ بہہ ہی جاتے ہیں لیکن آنسو بہانے کی بہترین جگہ سجدہ گاہ ہے۔۔ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر گڑگڑاتے ہوئے، اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے ، اس کے خوف سے لرزتے ہوئے، اس کی رحمت کی آس امید لیے جو آنسو انسان کی آنکھوں سے بہتے ہیں، ان سے حسین چیز دنیا میں کوئی نہیں۔۔۔ اللہ ہمیں اس نعمت کو بہتر طور پر صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button