لکھ یار

“حیات “قسط 1 از قلم “عظمیٰ خرم “

#پری_اپرووڈ

#”حیات “پارٹ 1 (یہ ناول میری زندگی کے بہت بڑے اور اہم حصوں اور لوگوں کا احاطہ کرتا ہے )

“حیات “

پارٹ 1

 

دسمبر کی بے نور ٹھٹھرتی ہوئی رات کا آخری پہر تھا ۔ہسپتال کے مردہ خانے کے دروازے کی بھدی چرچراہٹ نے سناٹے کو توڑا اور رات کی ہولناکی کو کچھ اور بڑھا دیا ۔آنے والے نے ایک لمحے کو اپنے بڑھتے قدم روک لئے تھے ۔صاف پتا چلتا تھا کہ نووارد کسی کشمکش میں ہے گویا فیصلہ نہ کر پا رہا ہو کہ آیا اسے آگے جانا ہے یا پیچھے ۔آخر اس نے آگے جانے کا فیصلہ کیا ۔لمبی راہداری زندگی کے آثار سے خالی تھی ۔نووارد نے خوف کے مارے مٹھیاں بھینچ رکھی تھیں ۔موت کی بو اس کے نتھنوں سے ہوتی ہوئی اس کے جسم میں سرایت کر رہی تھی ۔جسم پر طاری کپکپی خوف کی وجہ سے تھی یا سردی کی وجہ سے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا ۔راہداری میں لگا سو واٹ کا اکلوتا پيلا بلب موت کے خوف کو دور کرنے میں ناکام تھا ۔اس نے قدم تیز تیز اٹھانے شروع کر دیے ۔اس کی نظریں راہداری کے اختتام پر موجود دروازے کی طرف تھیں جو اسے موت کی وادی میں لے جاتا ،پر اور کوئی چارہ بھی تو نہ تھا ۔جیسے ہی اس نے دروازے پر ہاتھ رکھے مردہ خانے کے باہر سے گیڈر کے رونے کی آواز آنے لگی ۔خوف سے وہ بدک گیا اور غیر ارادی طور پر اس کا ہاتھ اپنے دل پہ جا رکا گویا دل کی دھک دھک سے تسلی لی کہ وہ ابھی زندہ ہے ۔دروازے کی دہلیز پر کھڑے ہو کر اس نے اندر ہال کمرے میں دیکھا اور اس کی نظر پلٹنا بھول گئی ۔قطار در قطار اسٹیچرز اور ان پر پڑے ،اکڑے ہوے ،مردہ وجود جو زندگی سے دور موت کی وادی میں حالت انتظار میں تھے کہ کب انہیں قبر کی مٹی نصیب ہو گی اور وہ برزخ میں جایں گے ۔ہو سکتا ہے وہ برزخ میں ہوں اور جنت اور دوزخ کے انتظار میں ہوں ۔۔۔۔۔آہ یہ انتظار ۔۔۔۔ان کے لیے یہ انتظار جان لیوا نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ پر اس کی جان تو ابھی باقی تھی ۔۔۔۔ایک عجیب سنسناہٹ اس کے پورے وجود کو جھنجھنا گئی ۔۔اسے یاد آیا ،جانے کون سا منحوس لمحہ تھا جب اس نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا تھا ۔

نہ چاہتے ہوے بھی اس نے اس ہال کمرے میں قدم رکھ دیے ۔اس نے نظر اٹھا کر ہال کے آخر تک دیکھا ۔کچھ اسٹیچرز خالی تھے اور کچھ پر لاشیں پڑی تھیں۔وہ اچھے سے جانتا تھا یہ بے کفن لاشیں کن کی تھیں، کچھ لاوارث تھیں اور کچھ کے وارث تو تھے پر وہ پوسٹ مارٹم کے انتظار میں تھیں ۔کچھ کے ورثا نے انھیں منہ دیکھنے کے چکر میں لٹکا رکھا تھا ۔یہ بھی خوب رہی ساری عمر منہ دیکھو نہ دیکھو پر جب انسان مر جائے تو اسے چین سے مرنے بھی نہ دو اس کی لاش کو کفن کی آس میں قبر کی مٹی کی آس میں لٹکا دو ۔زندگی منجمند تھی یہاں اور موت !۔۔۔۔۔۔۔۔موت جاگ رہی تھی،سب دیکھ رہی تھی،گھات لگاے بیٹھے شکاری کی طرح۔

یہی سب سوچتے وہ جلدی جلدی آگے بڑھنے لگا ۔وہ ہر اسٹیچر کے پاس لمحہ بھر رکتا اس کا لرزش زدہ ہاتھ تيزی سے جيب میں جاتا اور پھر کفن کے نیچے ۔اسے بس جلد از جلد کام نمٹا کے واپس نکلنا تھا ۔فارمالین کی تیز بو چاروں طرف پهيلی تھی ۔ہال کمرے میں چھوٹے چھوٹے دو بلب روشن تھے جو اس کمرے کے ماحول کو اور بھی وحشت ناک بنا رہے تھے۔تمام بڑی ٹیوب لایٹس بند تھیں وہ چاہ کر بھی انہیں جلانے کا رسک نہیں لے سکتا تھا ،ظاہر ہے مردوں کو روشنی سے کیا مطلب؟ جب زندگی ہی روٹھ جائے پھر اس کے لیے تو اندھیر ہی اندھیر ہے ۔

اس کا دل کسی برق رفتار ريل گاڑی کی طرح سرپٹ دوڑ رہا تھا۔تبھی خوف اور بڑھتی سردی اس پر غالب آنے لگی اس پر ٹھنڈی لاشیں ۔جب بھی وہ کفن کے نیچے لاش کا برفيلا ہاتھ ٹٹولتا تو اس کا دل اور تیز دھڑکنے لگتا ۔اب اس کے کام میں تيزی آ گئی تھی ۔تبھی جلد بازی میں اس نے ایک اسٹیچر چھوڑ دیا ۔اگلی لاش کا ہاتھ ٹٹولنے کے لئے اس نے کفن کے نیچے ہاتھ کیا اس کے ہاتھ نے ٹھنڈے برف اسٹیچر کو محسوس کیا پر اس سے پہلے کہ وہ لاش کا ہاتھ پکڑتا پیچھے سے آنے والی آواز نے اس کی روح قبض کر لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

میت کو غسل دیا جا چکا تھا ۔تبھی صغراں تینوں بچوں سميت صحن میں داخل ہوئی ۔میت چاروں طرف سے سوگواران میں گھری ہوئی تھی ۔صغراں کو دیکھتے ہی ہجوم نے اسے راستہ دینا شروع کر دیا ۔سکتے کی کیفیت میں چلتے ہوے وہ میت کے سرہانے پہنچی کاکے کو گود سے اتار کے اس نے چیخ ماری ،”ہاے میری بے بے !ہاے میں کیوں نہ مر گئی میری ماں !ہاے میرے نصیب ، ربا تو نے مجھے میری ماں کا غم کیوں دکھایا ۔بےبے !بےبے !اٹھ دیکھ نا !تیری دھی آئی ہے دیکھ مجھے بےبے ۔۔۔۔تیری ضغی آ گئی ہے ۔” 

صغراں کے بین نے سارے ہجوم کو رلا دیا ۔حشمت نے بیٹی کے بین سنے تو ہجوم کو چیرتے ہوے اس تک پہنچا ۔صغراں بھی باپ کے گلے لگ کر دھاڑیں مارنے لگی ۔

مائی جنتے کو وفات پاے آج چالیس روز ہونے کو آے تھے ۔گاؤں والوں نے اس کی مرگ کی ساری روٹیاں حلال کی تھیں ۔جنت بی بی عرف مائی جنتے حشمت اللّه کی چہیتی بیوی تھی ۔گو کہ اس کی عمر حشمت اللّه سے زیادہ نہ تھی پھر بھی عورت ذات تھی۔سارا دن ڈھور ڈنگروں میں لگی رہتی پھر قيد تنہائی ،بس تبھی قبل از وقت بڑھاپے نے بڑی خاموشی سے اس کی جوانی میں ،”سنگ” لگا لی اور اس نے گاؤں والوں کے لئے ایک جست میں ،”آپا” سے ،”مائی جنتے “،کا سفر پهلانگ لیا ،پر حشمت اللّه آج بھی ان کے لیے ،”بھا حشمت”ہی تھا ۔۔۔۔۔چھے فٹ سے نکلتا قد کاٹھ ،گورا چٹا رنگ ،گالوں پر لالیاں ایسی جو بديسی ميموں کو بھی دوسری نظر دیکھنے پر مجبور کر دے ۔چوڑے شانے آج بھی اس کی جوانی کا ثبوت تھے ،اس پر اس کا پتلون بشٹ پہننا اس کے روپ کو اور چار چاند لگا دیتا جب وہ گٹ پٹ انگریزی بولتا تو گاؤں کی ڈوگریاں حیرت سے اپنی بڑی بڑی آنکھیں جھپک جھپک کر نا سمجھی سے اسے تكتی رہ جاتیں۔جوانی تو اس پر تھم گئی تھی گویا، پچاس سال کا حشمت ڈوگر آج بھی بیس سال کے لونڈوں کو ٹکر دینے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔

حشمت اللّه ڈوگروں کے اس گاوں کا واحد دس جماعت پاس بندا تھا ۔وہ شہر کے بڑے ہسپتال میں کمپوڈر تھا۔انگريز ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرتا تھا اور اچھی انگریزی جانتا تھا ۔گاؤں کے لوگ ڈاکٹر اور کمپوڈر میں فرق نہیں جانتے تھے ان کے لئے تو حشمت ہی ،”وڈا ڈاکٹر “،تھا۔

صغراں حشمت اللّه کی اکلوتی اولاد تھی خیر سے شادی شدہ تھی اور تین بچوں کی ماں تھی ۔بائیس سالہ صغراں اسی موقع کی تلاش میں تھی ۔بےبے کے چہلم کے بعد اس نے حشمت کی نہ نہ کے باوجود اس نے اپنے ابا کی بختاور بی بی سے شادی کروا دی۔اپنے ابا کو اکیلے چھوڑ کر جانا اسے منظور نہ تھا ۔آس لگاے گاؤں کی کتنی ہی الہڑ مٹیاروں کے دل چکنا چور ہو گئے تھے ۔

پندرہ سالہ بختاور انہیں سچ میں ،”بخت”، والی لگنے لگی ۔اللّه نے بھی اسے بخت لگاے اور یکے بعد دیگرے اسے ایک بیٹی اور دو بیٹوں سے نوازا ۔بختاور نے حشمت اللّه کو ایک بار پھر اولاد جیسی نعمت دے کر اس کا دل جیت لیا تھا ۔گھر میں پیسے کی ريل پیل تھی خوشحالی تھی پر تبھی،”جنگ آزادی ،”کا نقارہ بج اٹھا۔

حشمت اللّه کے انگريز افسروں نے اس سے اس کی خواہش پوچھی اور اسے لاہور کے بڑے ہسپتال ٹرانسفر کر دیا گیا ۔حشمت اللّه کو لاہور میں ایک کمرے کا کواٹر بھی آلاٹ کر دیا گیا۔آزادی کے علان سے پہلے پہلے حشمت اللّه نے اپنے بیوی بچوں کو جالندهر سے باحفاظت لاہور منتقل کر دیا اور اس طرح وہ لوگ اس تاریخی خونی طوفان سے بچ گئے تھے ۔

اس بات سے انجان کہ اصل جنگ تو اب شروع ہوئی تھی ،بقاے ،”حیات”، کی جنگ اور اس جنگ میں پیش آنے والے ہر چھوٹے بڑے طوفان سے انہیں گزرنا ہی گزرنا تھا ۔لڑائی طے تھی پر ہار جیت مقدر کی بات تھی ۔

تین بچوں کا ساتھ تھا اور نیا مہمان بھی آنے کو تھا ۔بختاور عرف بختو نے حیرانی اور کسی قدر پریشانی سے اس بارہ ضرب چودہ کے کواٹر کو دیکھا۔،”اب ہم یہاں رہیں گے؟”بختو نے پریشانی سے حشمت سے پوچھا ۔وہ نہ پوچھتی تب بھی حشمت اپنی چہیتی بیوی کے دل کی زبان سمجھ سکتا تھا ۔دل گرفتہ ہوتے ہوے بولا ،”دیکھ بهلی لوک ! اب یہی ہمارا ملک ہے بٹوارہ ہو چکا ہے ۔اب ہمیں ہماری نسلوں کو یہیں رہنا ہے ۔تو جتنی جلدی اس بات کو سمجھ لے گی ہم سب کے لئے بڑی آسانی ہو جائے گی ۔”بختو کی آنکھوں میں نمی آ گئی ،”اتنے سے کمرے میں تو ہم نے کبھی ڈنگروں کو نہیں رکھا انہیں بھی کھلی جگہ دی ہمیشہ اور اب ہم یہاں رہیں گے؟یہ ہے ہمارا ملک؟ تو وہ کس کا تھا ؟؟ جہاں ہم جم پل کے وڈے ہوے جہاں ہمارے كهيت تھے ڈھور ڈنگر تھے ،وڈے وڈے گھر تھے ؟ حشمت نے بے بسی سے اسے دیکھا کہتی تو وچاری صحیح تھی کیا کیا خواب سجا کے وہ لاہور آئی تھی کہ وہاں بھی اس کا ويسا ہی بڑا سا کھلا گھر بار ہو گا ،ڈھور ڈنگر ہوں گے كهيت ہوں گے ۔”دیکھ بختو! وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ۔میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کچھ عرصے کے بعد تجھے پنڈ سے بھی بڑا گھر لے کر دوں گا ۔ارے كملی تجھے کیا پتا آزادی کتنی بڑی نعمت ہے ۔ہم آزاد ہو گئے ہیں ۔”بختو نے آنسو بھری آنکھوں سے ایک بار پھر اس کواٹر کے در و دیوار پر نظر ڈالی اور جلے دل سے سوچا ،”زاہد کے ابا تجھے کیا پتا کہ جس کھڈی نما کمرے کو تو آزادی کہہ رہا ہے میرے اور میرے بچوں کے لیے وہ کال کوٹھری کی سزا ہے ،قيد ہے ،آزادی نہیں ۔کتنے خوش تھے ہم پنڈ میں کبھی اپنے گھر کی چار دیواری تک نہ کرائی تھی اتنا وڈا صحن تھا ہمارا ۔کہاں شروع کہاں ختم حساب ہی کوئی نہیں تھا اور یہ ایک کمرا جسے تو گھر کہتا ہے یہ تو شروع بھی نہیں ہوتا اور ختم بھی ہو جاتا ہے ،آخر ہم اتنے جی اس ایک کمرے میں کیسے سویا کریں گے ؟”حشمت کو اس کی خاموشی چبھ رہی تھی لہٰذا اسے پچکارتے ہوے بولا ،”دیکھ بختو تو پریشان نہ ہو میں بڑی جلدی بڑے ڈاکٹر صاب سے بات کروں گا کہ ہمیں کوئی اور جگہ دے دیں رہنے کے لئے اور پھر یہ بھی تو سوچ جو ہم اتنی بڑی زمین اور گھر وہاں پنڈ میں چھوڑ کے آے ہیں اس کے بدلے میں ہمیں کچھ نا کچھ تو ملے گا نا ؟ نا جانے وہ اپنے الفاظ سے کسے تسلی دے رہا تھا ،خود کو یا بختو کو ؟جیسے ہی نیا گھر آلاٹ ہو گا ہم وہاں چلے جایں گے ۔”اس کی اس بات پر بختاور خوش ہو گئی ،”ہیں سچ کہہ رہے ہو زاہد کے ابا ؟ہمیں اس کے بدلے یہاں گھر زمین ملے گی ؟”حشمت نے مسکراتے ہوے اس کی معصومیت کو دیکھا اور بولا ،”ہاں نہ كملی !ملے گا ضرور ملے گا پر تب تک تجھے صبر کرنا پڑے گا ۔بس اب تو جلدی سے برتن نکال میں کچھ کھانے کا بندوبست کرتا ہوں ۔بختو کے لئے اتنا دلاسا بہت تھا ،اور ویسے بھی اسے کیا پتا تھا کہ ،”صبر “،کا یہ سفر تو اس کی نسلوں تک چلنے والا تھا ۔بختو کو اب ایک نئی پریشانی نے آن گھیرا ،”ارے یہ تو تو نے بتایا ہی نہیں زاہد کے ابا کہ یہاں تو تندور ہی نہیں ہے تو کھانا کیسے پکے گا ؟تندور کہاں ہے ؟اور ہم سب اس ایک کمرے میں سویں گے کیسے ؟” حشمت بختو کے سوال سن کر گڑبڑا سا گیا ،”اوہو تو پریشان نہ ہو میں کرتا ہوں کچھ ۔بس میں ابھی آیا تو برتن نکال لے تب تک ۔”بختو کو اس کے سوالوں کے منجدهار میں ہکا بکا چھوڑ کر وہ فورا ہسپتال آیا اور ہسپتال کے بڑے باورچی خانے سے اپنا اور گھر والوں کا کھانا لیا اور واپسی کی راہ لی ۔کمرے میں ایک طرف دیوار کے ساتھ اس نے تین چارپائیاں اوپر نیچے بچھا دی تھیں ۔سب سے اوپر کی چارپائی پر اس کے دونوں لڑکے زاہد اور حامد سو رہے تھے اور اس سے نیچے درمیان والی چارپائی پر اس کی بڑی بیٹی حمیداں سو رہی تھی اور سب سے نیچے کی چارپائی پر بختو اپنے وسوسوں اور خدشات کے ساتھ جاگ رہی تھی ۔نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔حشمت اللّه نے کواٹر کے باہر میدان میں چارپائی ڈال لی تھی جہاں چاروں طرف اس جیسے بیشمار ،”حشمت”، اپنی اپنی چارپائی پر سوچوں اور فکروں کی گٹھری کا تکیہ سرہانے دباے دراز تھے ۔

از قلم ،”عظمیٰ خرم”

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button