لکھ یار

دھند………راجہ قیصر

یہیں رکتے ہیں نا قیصر۔۔۔۔کچھ دیر ۔۔دیکھو تو کیسے اس جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ۔۔ کتنا سہانا منظر ہے ہاں ۔۔ہے تو ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔ گاڑی کی شیشے سے باہر گزرتے منظر اسے اور بےچین کر رہے تھے ، وہ لپک کہ شیشے سے باہر جھانکتی ، گردن گھما کر پیچھے دیکھتی کہ جیسے کوئی منظر ٹھیک سے دیکھا نہ ہو اور دوبارہ دیکھ رہی ہو ۔۔ بس ادھر ھی پلیز ۔۔ مجھے کچھ دیر چلنا ہے اس دھند سے لپٹے جنگل میں ۔۔ اس نے اپنی نظروں کو شیشے سے پار اور ہاتھ کو میرے ہاتھ پہ دباتے ہوے کہا ۔۔ اس سنسان راستے پر ؟ میں نے کہا وو دروازہ کھول کے باہر نکل چکی تھی ۔۔کہاں ہے سنسان؟؟؟ مجھے تو جیسے یہ دھند چھو رہی ہے ۔۔کاش میں اس سے لپٹ سکتی ۔۔ نجانے کیوں آج آپ سے نہیں اس دھند سے لپٹنے کو جی چاہ رہا ہے ۔۔ یہ بات اس نے ایک پھیکی سے ہنسی میری طرف اچھالتے ہوے کہی ۔۔ میں اسے اپنے سینے میں اتار لینا چاہتی ہوں ۔۔ کہیں بہت اندر تک ۔۔اس نے اپنے دونوں بازو ہوا میں کھولے اور آنکھیں بند کر کے نہایت گہری سانس لی ۔۔ کہ جیسے بس چند سانسیں ھی باقی بچی ہوں اسکے پاس اور وہ بھرپور طریقے سے انھیں جینا چاہتی ہے ، محسوس کرنا چاہتی ہے پتہ ہے قیصر ۔۔۔۔مجھے بچپن سے ھی اس دھند نے اپنے جادوئی حصار میں لئے رکھا ۔۔ کبھی کبھی پہاڑوں کے دامن سے نکلنے والی اس دھند کے منظر کو ہمیشہ وہاں پہنچ کر دیکھنے ، اور چھو لینے کی حسرت رہی ۔۔کہاں سے آتی ہے ، کیسے ہوا کے دوش پے اوپر اٹھتی ہے ، کیسے نکلتی ہے ، کبھی نہیں دیکھ سکی ۔۔۔۔ سنسان راستے پر اور آگے چلتے دھند گہری ہوتی جا رہی تھی ، اب تو وہ بھی دھندلی سی دکھائی دے رہی تھی بہت پاس ہونے کے باوجود ۔۔ مجھے لگتا ہے اس دھند کو اللّه نے اپنے آپ کو پرکھنے اور دیکھنے کے لئے بنایا ہے ۔۔دیکھیں تو کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ۔۔ آپ صرف اپنے آپ کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں ۔۔جیسے اس ساری کائنات میں صرف آپ اور خدا موجود ہوں ۔۔ وہ رک گئی ، اور میری طرف مڑ کر بولی ۔۔ کیا آپ یہیں میرا انتظار کریں گے ؟ چاہیں تو گاڑی میں بیٹھ جائیں ۔۔ مجھے اس دھند سے اکیلے میں ملنا ہے ، میں کچھ دور صرف اسکے سنگ جانا چاہتی ہوں ، مجھے اسکے مسکن تک جانا ہے ۔۔ دھند گہری ہو رہی ، مجھے تو اس منظر سے وحشت ہو رہی ہے اب تو۔۔۔اور تم۔۔۔۔اکیلے؟؟؟ میری بات کے ختم ہونے سے پہلے ھی وہ سفید لباس میں ملبوس اپنے ہاتھوں کو اپنے بغلوں میں دبائے ، میری نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔۔ بیچینی سے 3 گھنٹے گاڑی میں انتظار کے بعد دھند چھٹ چکی تھی ۔۔ جنگل کے بیچ جاتی پگڈنڈی پر چلتے چلتے شام کے سائے گہرے ہوتے چلے گے ۔۔رات نے آن لیا ۔۔ اسے آواز دینے پر بھی میری اپنی ہی آواز واپس سنائی دینے لگی ۔۔اسکا کوئی جواب نہ آیا ۔۔ کئی راتیں آئی اور گئیں لیکن اسکا کوئی سراغ نہ ملا ۔۔ 5 سال گزرنے کے بعد بھی میں دھند میں اسی راستے پر چلتے ہوئے ، دھند سے کئی باتیں کرتا ہوں ۔۔مجھے لگتا ہے کہ جیسے وہ سچ مچ دھند میں تحلیل ہوکر سارے جنگل میں گھوم رہی ہے ، پھیل رہی ہے ۔۔ دھند کو چھوتے ہی مجھے اسکا لمس محسوس ہوتا ہے ۔۔میں دھند کو گلے لگاتا ہوں اسے ایک گہری سانس سے سینے میں اتارتا ہوں کے جیسے یہ میری آخری چند سانسیں ہوں ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button