سوال…………محمد ولید اقبال
سین 1: ایک اسکول کی آٹھویں کلاس کے اندر ریاضی کا لیکچر جاری ہے. طالبعلم: سر یہ آخری سوال کا جواب کسطرح آیا ہے ذرا بتا دینگے؟ ٹیچر: بُک کہ آخر میں دیکھو کیا جواب یہی ہے یا نہیں؟ طالبعلم: جی سر یہی ہے مگرِ….! ٹیچر: تو بس پھر یہ نہ پوچھو کیسے آیا ہے یہ دیکھو کہ جواب درست ہے کہ نہیں! سین 2: ایک کالج کی فرسٹ ائیر کی کلاس میں ریاضی کا لیکچر جاری ہے طالبعلم: سر کیا یہ سوال اس میتھڈ سے بھی کیا جا سکتا ہے؟ ٹیچر: کیوں جس طرح میں نے کروایا ہے اسطرح کرنے میں کیا تکلیف ہے تمہیں؟ طالبعلم: سر میں تو بس پوچھ رہا تھا…!!! ٹیچر: اسطرح کے سوال اپنے گھر پر چھوڑ کر آیا کرو اور اگر پاس ہونا ہے تو جسطرح سے میں نے سوالات حل کروائیں ہیں اسی طریقے سے ہی امتحانات میں حل کرنا! سین 3: یونیورسٹی کے اندر پرابابیلیٹی کا لیکچر جاری ہے طالبعلم: سر یہ سیکنڈ لاسٹ سٹیپ سمجھا دیجئیے گا پلیز! ٹیچر: کیا مسئلہ ہے اسمیں یہ فرسٹ ائیر کا کانسیپٹ ہے. کیا مجھے اب آپ لوگوں کو گراؤنڈ لیول پر سمجھانا پڑے گا؟ بچے نہیں رہے اب آپ کہ آپکو سپون فیڈ کرنا پڑے کیا ساری عمر لکیر کے فقیر ہی رہوگے؟ ناظرین یہ صرف ایک فرضی کہانی نہیں میری ذاتی آپ بیتی ہے. امید کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کا ایکسپیرئنس مجھ سے بہتر رہا ہوگا لیکن سوال تو یہ ہے کہ “سوال” کے اٹھانے کو ہم کب تک ڈسکرج کرتے رہینگے؟ پھر آپ کو یہ گلہ بھی ہے کہ دوسری قومیں ہم سے آگے نکل گئیں اور ہم بہت پیچھے رہ گئے! حضرت علی رضی اللہ عنہہ کا قول ہے کہ “سوال آدھا علم ہے!” کتنی جامع بات ہے! دنیا کی بڑی سے بڑی ریسرچز ایک سوال سے ہی شروع ہوتی ہیں. یہ بات صرف تعلیم کے شعبے تک ہی محدود نہیں ہر شعبے میں اہم ہے چاہے وہ دین ہو یا سیاست ہو. دعا ہے کہ ہم سوال کی اہمیت کو جان لیں اور سوال کو اپنی انا کا مسئلہ نہ بناتے ہوئے اسکی حوصلہ افزائی کرنا شروع کردیں! آمین!