لکھ یار

حیات از قلم “عظمیٰ خرم “

#پری_اپرووڈ 

#حیات_پارٹ_11

# حیات 

پارٹ 11

زاہد اتنے سالوں بعد گھر واپس آیا تھا اور خلاف توقع اس کا رویہ بہت اچھا تھا ۔بختاور نے آگے بڑھ کر بیٹے کو گلے سے لگایا ۔زاہد نے احد کو دیکھا تو ایک لمحے کو وہ بھی ششدر رہ گیا پھر آبدیدہ ہوتے ہوے بھائی کو بڑھ کے گلے لگایا ۔اسے سچ میں لگا جیسے احد کی شکل میں ابا واپس آ گئے ہوں ۔

زاہد اور حامد دونوں کو اللّه نے صاحب اولاد کیا تھا اور زاہد یہی خبر سنانے لاہور آیا تھا ۔بختاور تو بیچاری ممتا کی ماری تھی فورا سب بھول کر بیٹے کے ساتھ چل پڑی ۔

احد نے یتیم خانے کے توسط سے ایک صاحب حیثیت کے گھر نوکری شروع کر دی تھی ۔اور پرایویٹ بی اے کے ساتھ ساتھ ،”آئی ایس ایس بی “، کی تیاری کر رہا تھا ۔

اس لئے اس نے زاہد کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا پر وہ بےبے کے لئے بہت خوش تھا کہ چلو کسی بہانے اس کی بےبے بھی باہر نکلے گی اپنے بیٹوں کو خوش دیکھے گی تو اس کے غم میں کمی ہو گی ۔

سالوں سے احد کی یہی مصروفیت تھی کہ صبح تڑکے ہی ملک اسلم صاحب کی کوٹھی پہنچ جاتا ۔ان کی گاڑی صاف کرتا اور جب ملک صاحب فیکٹری جانے کے لئے نکلتے تو وہ بھی ان کے ہمراہ چلا جاتا ۔اور سارا دن ان کے کام بجا لاتا ۔اس کا رنگ روپ دیکھ کر اکثر لوگ اسے ملک صاحب کا بیٹا سمجھ بیٹھتے ۔احد نے کبھی کسی کام میں عار محسوس نہیں کی اور اس کی یہی ادا ملک اسلم کے دل میں گھر کر گئی تھی ۔ان کے بچوں کو سائیکل پر اسکول سے لانا اور اسکول کے بعد ٹیوشن پڑھانا بھی اسی کی ذمہ داری تھی ۔رفتہ رفتہ احد ان کے گھر کے فرد کی مانند ہو گیا تھا ۔

پر اب جب کہ بختاور بھی کراچی چلی گئی تھی تو دن تو اسی گہما گہمی میں ڈھل جاتا پر رات کو پڑھنے بیٹھتا تو بےبے کی یاد ستاتی ۔گھر اسے کاٹ کھانے کو دوڑتا ۔ایسے میں وہ اکثر محلے کے باقی ہم عمر لڑکوں کے ساتھ سڑکيں ناپنے چل پڑتا اکثر وہ لوگ سينما میں رات والا آخری شو دیکھ کر چوری چھپے واپس آتے ۔

سردیوں کی ایسی ہی ایک رات تھی وہ سارے دوست رات کے اس پہر شو دیکھ کر واپس آے تھے ۔تبھی ان کی شرط لگی کہ دیکھا جائے کون کتنا بہادر ہے ۔اور یہ پتا تب چلے گا جب ہر لڑکا باری باری ہسپتال کے ،”مردہ خانہ “،میں اندر جائے گا اور ہر مردے کے ہاتھ میں ایک ایک میٹھی گولی رکھ کر آے گا ۔پھر دوسرا لڑکا جائے گا اور وہ ساری گولیاں اکٹھی کر کے لاے گا ۔اس سے پتا چلے گا کہ کون کتنا بہادر ہے ۔سال ہا سال سے ہسپتال کے احاطے میں رہتے ان کے لئے مردہ خانہ ایک عام سی چیز تھی اس کے باوجود سردی کی اس رات میں کچھ تو ایسا تھا جو ان سب کو اندر سے خوفزدہ کر رہا تھا ۔اب سوال یہ تھا کہ پہلے اندر کون جائے گا تو اس لیے سب باری باری ،”پگ”،گئے اور قرعہ فال ,”رشید” کے نام نکلا ۔دل کڑا کر کے رشید نے مردہ خانہ میں قدم رکھا اور اپنا کام شروع کیا اب وہ مین حال میں جلدی جلدی گولی رکھنے کا کام سر انجام دے رہا تھا ۔بس آٹھ ،دس اسٹیچر اور رہ گئے تھے جب باہر سے گیڈر کے رونے کی آواز نے ماحول کو مزيد ہولناک بنا دیا ۔رشید نے خود کو کوستے ہوے جلدی جلدی گولی پکڑانی شروع کی اب اس نے بجاے گولی مردے کے ہاتھ میں رکھنے کے اسٹیچر پر رکھنی شروع کر دی ۔اسی جلد بازی میں اس نے ایک دو اسٹیچر چھوڑ دیے اور تيزی سے ہال کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھنے لگا پر تبھی پیچھے سے آنے والی آواز نے گویا اس کی روح قبض کر لی ،”مینو بھل گیا ایں سوہنیا؟” رشید نے بند ہوتے دل کے ساتھ آواز کی سمت ذرا سی گردن گھمائی تو یہ دیکھ کر وہ بیہوش ہو گیا کہ ایک مردہ سر پر سفيد چادر ڈالے اسٹیچر پر بیٹھا ہے۔

رشید کے بیہوش ہوتے ہی احد نے چادر اتاری اور رشید کی جانب دوڑا ۔شکر اللّه کا کہ اس کی سانسیں چل رہی تھیں ۔

یہ سب احد اور اس کے دوستوں کی شرارت تھی جو رشید کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی وہاں چھپے بیٹھے تھے اور منصوبہ یہ تھا کہ رشید جیسے ہی گولی پکڑاے گا احد اس کا ہاتھ پکڑ لے گا پر رشید نے جلد بازی میں اسے چھوڑ دیا اور احد نے شرارت کو یہ رنگ دے دیا ۔

احد اکثر اپنے دوستوں کی شرارتوں کا حصہ بنتا تھا جسے وہ لوگ عرصہ درزا تک یاد کر کے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ۔

پر احد کی زندگی کا ایک رخ اور بھی تھا جسے اللّه کی ذات کے سوا اور کوئی نہیں جانتا تھا ۔

احد جب سے یتیم خانے سے واپس آیا تھا یہ مصروفیت اس نے خود پر لازم کر لی تھی -ہسپتال کے احاطے کے آخر میں درختوں میں گھری ایک مسجد تھی اور اس مسجد سے متصل ایک مزار ۔جانے وہ کون بزرگ تھے ؟وہ کن کا مزار تھا ؟پر وہ ایک بہت پرانی قبر تھی جس پر برگد کے بوڑھے درخت نے سایہ کر رکھا تھا ۔برگد کے بوڑھے درخت کی لٹکتی ہوئی جڑیں زمین کو چھوتی گویا صاحب مزار کو سلامی پیش کرتی تھیں ۔یہ مزار ہسپتال کے ایک سنسان احاطے میں واقع تھا جہاں رات تو دور کی بات دن میں آنے سے بھی لوگ گھبراتے تھے ۔مائیں بہت بچپن میں ہی اپنے بچوں کو وہاں جانے سے روکتی تھیں کہ وہاں بوڑھے درخت پر ہوائی چیزیں ہیں ۔

احد جب سے گھر آیا تھا وہ روزانہ رات کے آخری پہر وہاں آ جاتا ۔مسجد کے صحن میں جھاڑو دیتا صفیں صاف کر کے بچھاتا اور مسجد کی لیٹرینوں کو دھوتا ۔وضو کرتا تہجد پڑھتا اور فجر تک وہیں رہتا ۔اپنی کامیابی کی دعائیں مانگتا تاکہ اپنی بےبے کو وہ ساری خوشیاں دے سکے جو اس کا حق تھیں ۔فجر پڑھ کے وہ پاس کے میدان میں لڑکوں کے ساتھ فٹ بال کھیلتا اور بےبے کے ڈیوٹی پر جانے سے پہلے پہلے واپس آ جاتا ۔دونوں ماں بیٹا مل کے ناشتہ کرتے اور اپنے اپنے کام پر روانہ ہو جاتے ۔

احد نے سوچ لیا تھا جلد ہی وہ اس قابل ہو جائے گا کہ اپنی بےبے کو گھر بیٹھا کے کھلا سکے ۔پر اسے کوئی راہ سجھائی نہ دیتی تھی ۔ہر رات وہ گڑگڑا کے اللّه سے یہ دعا مانگتا کہ وہ اس قابل بن جائے کہ اپنی ماں کے سکھ کا ذریعہ بن جائے.

بختاور کو گئے چند دن ہی ہوے تھے کہ وہ واپس آ گئی ۔احد کو اس کے اتنی جلدی آنے کی کوئی امید نہیں تھی ۔خلاف توقع ماں کو دیکھ کر وہ دمک اٹھا پر اگلے ہی لمحے اسے کسی انہونی کا احساس ہوا ۔بختاور کی سوجی نم آنکھ ،افسردہ چہرہ کچھ اور ہی داستان سنا رہا تھا ۔

بختاور اور زاہد نے سارا سفر بڑے اچھے سے طے کیا ۔دونوں ماں بیٹا نے گزرے سالوں کی بہت سی باتیں کہی اور سنی ۔دونوں ہنسی خوشی گھر پہنچے ۔زاہد کی بیوی جو کراچی کے بنگالی خاندان سے تعلق رکھتی تھی بڑی خوشی سے ملی اور حامد اور اس کی بیوی نشو بھی ۔پر بختاور کو اندازہ ہو گیا کہ اس کا آنا ان سب کے لئے کچھ ایسا بھی خوشگوار نہ تھا ۔زاہد اور حامد دونوں کو اللّه نے ایک ایک بیٹے سے نوازا تھا دونوں بچے بیحد خوبصورت اور صحت مند تھے ۔چوبیس گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ بختاور کو احد کی یاد ستانے لگی ۔وہ جب بھی زاہد اور حامد کے بچوں کو گود میں لیتی اسے احد کی یاد ستانے لگتی اور وہ بات بے بات اس کا ذکر کرتی ۔کبھی اسے لگتا کہ ان کے بچے بلکل احد کی شبیہہ ہیں اس بات سے انجان کہ احد کا ذکر اس کے بھائیوں کے دل میں دبی نفرت کی چنگاری کو کیسے ہوا دیتی ہے ۔وہ زاہد اور حامد کو بتاتی کہ وہ کیسے گھر کے کام کرتا ہے ۔کپڑے دھوتا ہے اور کیسے اس نے پہلی دفعہ غبارے بیچ کے پیسے کماے ۔پھر کیسے اسے سیٹھ صاحب کے گھر پہلی نوکری مل اور اب وہ صبح سویرے کس طرح ،”بشٹ پینٹ “،پہن کے باؤ بن کے دفتر جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔زاہد اور حامد نے دانت پیستے ہوے چھوٹے بھائی کی ایک ایک تعریف ہضم کی پر چند دن میں ان کی ہمت جواب دے گئی ۔

ایسے میں ایک دن بختاور قرآن پاک کھولے بیٹھی تھی تبھی اس نے کہا “اور احد اتنی اچھی تلاوت کرتا ہے کہ پوچھو مت “۔ تبھی زاہد تلملا کے بولا ،”بےبے تو جب سے آئی ہے احد کی باتیں اور اسی کے قصے لے کر بیٹھی ہے تو نے ایک بار بھی ہمارے گھر کی تعریف نہیں کی کہ کس قدر محنت سے ہم دونوں بھائیوں نے یہ مکان بنایا ہے،تجھے تو بس احد کی پڑی ہے اس کی ترقیاں تجھے بھاتی ہیں “-

بختاور نے سورہٴ ختم کی اور عینک اتار کر مسکراتے ہوے بولی ،”ہاں نا میرا بیٹا تمہارا مکان بھی بہت بہت اچھا ہے ۔اللّه تمہیں اور بھی بہترین سے نوازے گا کہ یہ سب بھی تو میری ہی دعاؤں کا ثمر ہے ۔۔۔” 

اس سے پہلے کہ بختاور کچھ اور کہتی زاہد غرور اور زہر بھرے انداز میں گویا ہوا ،”نا بےبے نا یہ سب تیری نہیں میری بیوی کی دعاؤں کا پھل ہے جو آج میں اس مقام پر ہوں ۔تو نے کبھی ہمارے لئے دعا کی ہی نہیں تیری سب دعائیں تو احد کے لئے ہیں ،بلکہ چل اٹھ تیری اداسی دور کروں ،جا حامد بےبے کو لاہور والی ريل گاڑی پہ بیٹھا کے آ یہ جائے اپنے احد کے پاس “۔

اور بختاور کے ہزار معذرت کے باوجود دونوں بیٹے اسی وقت ماں کو سامان سميت سٹیشن چھوڑ آے ۔سارا راستہ بختاور نے روتے ہوے طے کیا ۔ایک ایک لفظ تیر کی طرح لگا تھا اسے ۔پہلی بار اس کے دل سے نکلا ،”اچھا !زاہد آج سے تیری جنت میں نہیں تیری بیوی ہے ۔سب دعائیں بھی آج سے اسی کی لگیں گی تجھے میں اپنی دعائیں واپس لیتی ہوں ۔

جاری ہے…… جاری ہے 

از قلم ،”عظمیٰ خرم “

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button