فیشن، خواہش، موت، خدا… تحریر ابیحہ مقبول
فیشن، خواہش، موت، خدا
وقت کی ترقی کے ساتھ ساتھ لباس بھی آگے بڑھا ہے، گو کہ پیچھے ہی جارہا ہے لیکن کہیں گے یونہی کہ آگے بڑھا ہے
ایک پینٹ ٹراوزر چلے تھے لڑکیوں کے
اور ابھی بھی ہیں کہ جن کے پائینچے پاجامے کی طرح ذرا سے تنگ اور کٹ لگا کر عموما تین موتی لگائے جاتے ہیں پائنچوں پر
تو اسے پہن کر نماز پڑھنے لگی جب سجدے کے بعد بیٹھنا چاہا تو وہ موتی شدید چبھے اچانک
اسی طرح تشہد میں ہوا
خیر جیسے تیسے نماز مکمل کی اور بوجہ ازلی منافقت نماز میں ہی سوچا کہ وہ پہلی بوڑھیاں، لڑکیاں، عورتیں کتنی پرسکون ہوا کرتی ہوں گی
کھلے پائنچوں والی ٹخنوں کو ڈھانپتی شلواریں پہن کر اللہ کے سامنے بیٹھتی ہوں گی تو سکون سے بیٹھی رہتی ہو گی چند گھڑی
ہم نے خواہشوں کے موتی جب سے ٹانگے ہیں پہلے تو نچلا بیٹھا نہیں جاتا اور اگر بیٹھ جائیں تو ناآسودہ خواہش کی پنڈلی میں چھبتی ٹیس سکون سے جھکنے نہیں دیتی اور اگر جھک جائیں تو پہلے والی ٹیس دوبارہ بے فکری سے بیٹھنے نہیں دیتی
پھر سلام پھیر کر منافق وقت نے سوچا کہ وہ ٹروازر بھی تو کچھ لڑکیوں نے پہنے ہیں کہ جن کی بیرونی قریز ساری موتیوں بھری ہوتی ہے وہ کیسے بیٹھتی ہوں گی
دعا والے خالی ہاتھ ان لڑکیوں میں شامل نہ کیے جانے پر ادھورے شکر کو ادا کر کے چہرے پہ پھیرے اور مصلی سمیٹ لیا۔
ابیحہ مقبول