اور پھر کن کے بعد اس نے کہا…. جا میرے آدمی محبت کر!!!!افسانہ:قدیر احمد
اور پھر ” کُن” کے بعد اس نے کہا
جا میرے آدمی! محبت کر………!
آسمان کی نیلگونی تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور سُرخی مائل چادر آسمان کو چُھپا رہی ہے۔ ایسے میں دل بے آرام ہوا جا رہا ہے۔
قازوں کے غول جنوب سے شمال کی طرف محو پرواز ہیں اور میری سوچیں بھی ان کے ساتھ پرواز کیے جا رہی ہیں۔
لیکن شاید ایسا نہیں۔۔۔ وہ تو ہم آہنگی سے اڑتی جاتی ہیں اور میری سوچیں بے آہنگ ہوئی جاتی ہیں۔
انکی اڑان میں اک جمال ہے لیکن میری سوچوں میں اک ملال ہے۔
ملال کیوں نا ہو کہ وہ انسان جو فطرت کی لاکھوں برس کی ریاضت کا حاصل ہے اس نے فطرت کو خیرآباد کہہ دیا۔
فطرت نے اسے محبت کا جذبہ عطا کیا لیکن اس بد بخت جاندار نے اس جذبے کو اپنے قریب بھٹکنے نا دیا۔
وہ جذبہ کہ جس کے نام سے موسم بدل جائیں۔۔۔ فضا میں خوشبو پھیل جائے۔۔۔ پیلے پتے ہرے ہو جائیں۔۔۔
لیکن ہوا یہ کہ اس جذبے کو یکسر بُھلا دیا۔ فطرت کے سب سے بڑے کرشمے کو بُھلا دیا گیا۔ اور یہ بڑی بد بختی ہے کہ جس جذبے میں گُھل کے میں اور تُم نے ہم ہونا وہ ہمارے درمیان موجود نہیں۔ ہمیں اپنی ذات میں ایک ہونا تھا لیکن اب ہمارے درمیان دراڑیں ہیں۔ ہمیں اک دوسرے کی طرف تپاک سے ہاتھ بڑھانے تھے لیکن وہ ہاتھ ہی ہم نے کاٹ دئیے۔ ہمیں ایک ہونا تھا لیکن ہم بٹ گئے۔
ہم نے ایک دوسرے کی صورت پہچاننے سے انکار کر دیا اور یہی نہیں ہم نے اک دوسرے کا نام لینے سے بھی انکار کر دیا۔ ہم کسی الگ الگ سیارے کی مخلوق بن گئے۔ ایک دوسرے سے عاجز آ گئے۔
محبت کے جذبے میں گُھل کے ہمیں ایک دوسرے کا دکھ بانٹنا تھا لیکن ہوا یوں کہ اب ہمارا ایک دوسرے کے دُکھ سے کوئی واسطہ نا رہا۔
اگر ہم ایسے ہی چلتے رہے تو پھر ہمیں یاد رکھنا ہو گا فطرت کی طرف سے عطا کیے گئے اصول کے خلاف چلنے والے کو فطرت تاریخ کی مار دیتی۔
اور ہم باہمی محبت کے جذبے سے انکار کر کے تاریخ کی مار ہی تو کھا رہے ہیں۔
کیا ہم آنے والی نسلوں کو بھی تاریخ کی مار دیں گے؟
قازیں اپنی پَرواز میں کہیں بہت دور نکل چُکی ہیں لیکن میری سوچوں کے پَر یہ سب سوچ کے ہی مفلوج ہوئے جا رہے ہیں۔۔۔۔