کتاب : تلاش
باب 2 : عالمِ دین
ٹرانسکرپشن : اقرا سمیع
بات اور تقریر
عالمِ دین صاحب بولے جا رہے تھے، بولے جا رہے تھے۔ میں چاہتا تھا وہ رکیں تو انکی خدمت میں عرض کروں کہ عالی جاہ ! دور حاضرہ ہماری نسل نے پیدا نہیں کیا۔ وہ تو عالمی حالات کی پیدوار ہے۔ہماری نسل تو مظلوم ہےاور آپکی ہمدردی کی مستحق ہے ۔
لیکن عالم دین کسی مقام پر رکتے تو میں بات کرتا۔ دراصل وہ بات نہیں کر رہے تھے بلکہ تقریر کر رہے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ انہیں کئی ایک تقریریں ازبر تھیں۔ ایک ختم ہوتی تو وہ دوسری اسکے ساتھ جوڑ دیتے ، یوں تسلسل جاری رہا۔
دفعتاً دیوار پر گھڑی نے بارہ بجا دئیے اس پر ہم چونکے۔چونکہ ہم دس بجے انکی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ، لہٰذا پورے دو گھنٹے ہم سب اس انتظار میں بیٹھے رہے تھے کہ ان کی بات ختم ہو تو ہم ان سے سوال کریں ۔
اس روز مجھے پتا چلا کہ عالم دین سے بات کرنا ممکن نہیں ہے۔۔وہ سننے کے نہیں بلکہ کہنے کے شوقین ہیں اور ان کے پاس کہنے کی اتنی ساری باتیں ہیں کہ وہ ختم ہونے میں نہیں آتی ۔
نہ کوئی بحث کی نوبت نا کوئی اذن سوال
فقیہ شہر کا جاہ و حشم زیادہ ہے
اگر بالفرض محال وہ آپ کا سوال سن بھی لیں تو وہ اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے اور جواب کو اس قدر Irrelevant بنا دیں گے کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔ پھر وہ بات کو گھما پھرا کر اپنی کسی اور تقریر سے جوڑ کر اسے تقریر کی شکل دے دیں گے۔