کتاب : تلاش
باب 10 : گلاب کا پھول
ٹرانسکرپشن : زاہد ملانہ
علمائے دین۔۔۔۔۔۔۔ بھڑوں کا چھتہ
ہماری پرابلم صرف یہ تھی کہ یورپی سائنسدانوں کو قرآن کے سائنسی اشارات مہیا کرتے۔ علمائے دین کا فرض تھا کہ یورپ میں قرآن کی اشاعت کرتے لیکن ہمارے علمائے دین تو آپس کے اختلافات میں اس بری طرح سے پھنسے ہوئے ہیں کہ انہیں ایسے کام کی توفیق ہی نہیں۔
1968 میں جب میں حج کرنے گیا تو اسی سال حکومت پاکستان نے چند علمائے دین کا ایک وفد سرکاری خرچ پر حج کرنے بھیجا تھا۔ سعودی عرب میں چار ایک مقام پر ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے ۔ جہاں بھی علماء کی گاڑی کو ٹیکس کے لیے روکا گیا علماء نے جھگڑا کرنا شروع کر دیا کہ ہم سرکاری مہمان ہیں۔ لہٰذا ہم ٹیکس ادا نہیں کریں گے۔ اس پر ٹول ٹیکس کے سٹاف نے چندہ کرکے خود ٹیکس ادا کیا کیونکہ وہاں کوئی ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں۔ پھر مدینہ منورہ میں مجھے علماء کے وفد سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ مسجد نبوی عام طور پر رات کو مقفل کر دی جاتی ہے ۔ کبھی کبھار خصوصی مہمانوں کی درخواست پر اسے چند گھنٹوں کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان کی درخواست پر مسجد نبوی کو علمائے کرام کے لیے کھول دیا گیا۔ وہاں عجیب صورتحال دیکھنے میں آئی ۔ وہاں علماء کے ذاتی اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ بھن بھن کرتا بھڑوں کا چھتہ چھڑ گیا۔ کوئی کسی کی امامت میں نماز پڑھنے کے لئے تیار نہ تھا۔ جس کو مسجد کا جو مقام ہاتھ آیا، اس نے اس پر قبضہ جما لیا اور کسی دوسرے کو وہاں آنے کی اجازت نہ دی۔ اس کے برعکس بزرگانہ رویہ کیا تھا۔ ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جالی تک ہماری رسائی ہو گئی۔ ابھی میں پڑھ ہی رہا تھا کہ قدرت اللہ شہاب بولے یہاں زیادہ دیر مت رکو، دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ اس روز اپنے راہبروں کو نفسا نفسی عالم میں دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ ہمارے مبلغوں کا یہ حال ہے تو ہمارا کیا بنے گا ؟ بہرحال ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ تبلیغ اسلام کریں گے، کار لاحاصل ہے۔