کتاب : تلاش
باب 3 : نئی نسل
ٹرانسکرپشن : فرمان اللّٰہ
برہنگی
یہ ٹانگیں جھلانے کی رسم بنی نوع انسان کو بڑی مہنگی پڑے گی۔ بالکل ایسے جیسے یورپی عورتوں کو برہنگی مہنگی پڑرہی ہے۔ سوچیۓ یورپی مرد کیا ہوتا جا رہا ہے۔
میرے ایک دوست کو چند ماہ کے لیے امریکا جانا پڑا۔ جب وہ واپس آیا تو مجھ سے کہنے لگا ”یار مفتی! میں تو مارا گیا“
میں نے پوچھا کیا ہوا؟
بولا،میرے” ہتھ پلے“ کچھ نہیں رہا۔
کہنے لگا نیا نیا وہاں گیا تو بیچ(Beach)پر برہنہ عورتوں کو دیکھ کر میری تو آنکھیں پھٹ گٸیں۔
پاگل ہوگیا ۔ روز بیچ پر جاتا ،ٹہلتا رہتا۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا رہتا۔ اب یہ حال ہے کہ تحریک نہیں ہوتی۔ میں اب کیا کروں
صاحبو! ہمارے عالم دین خواہ مخواہ فحاشی اور برہنگی کو دینی مسئلہ بنا بیٹھے ہیں۔ یہ تو خالص فزی آلوجیکل مسٸلہ ہے۔ جس کو آپ بار بار دیکھیں گے، وہ اپنی کشش کھودی گی۔ اتنی عام نظر آنے لگے کہ تحریک پیدا نہ کرسکے گی۔
پہلے دن جب میں اسلام آباد آگیا تو اس شہر کا حسن دیکھ کر حیرت زدہ ہوگیا۔ اتنا حسن مجھ سے سہا نہیں جا رہا تھا۔ میں نے سوچا۔ یا الله! میں اس شہر میں کیسے رہ سکوں گا۔ آج یہ صورت ہے کہ مجھے اسلام آباد کا حسن نظر نہیں آتا۔ اس کی uglyspots کو دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔
میرے زمانے میں segregation کا دور تھا مرد الگ عورتیں الگ۔ مرد عورت کے ملنے کے امکانات بہت کم ہوتے تھے ۔ان دنوں چہرے کا نقاب سرک جاتا، چہرے کا تھوڑا ساحصہ، ایک آنکھ اور آدھا رخسار نظر آتا ، تو شدت کی تحریک پیدا ہوتی جو کبھی کبھی عشق پر منتج ہو جاتی۔
اس دور میں ہمیں اس segregation پراعتراض نہیں تھا۔یورپ ہماری اس رسم کا مذاق اڑاتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ علیحدگی نقصان دہ نتاٸج کے حامل ہوتی ہے۔ یورپ نے اس غیر فطری رویے کے خلاف آزادی کی تحریک چلاٸی یہاں تک کہ یورپی خاتون آج برہنگی کی حد تک جا پہنچی ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں عورت مرد میں کشش پیدا نہیں کرسکتی۔ اس لیے مرد لذت کےحصول کے لیے الٹے سیدھے غیر فطری راستے تلاش کررہا ہے۔ یورپی سوساٸٹی میں مختلف قسم کے Abbarations عام ہوتے جا رہے ہیں…ان غیر فطری رویوں کو قانونی جواز حاصل ہوچکا ہے۔۔