کتاب : تلاش
باب 4 : بڑی سرکار
ٹرانسکرپشن : نبیلہ سحر
حیرت انگیز
پھر مجھے یہ شوق چرایا کہ دیکھوں، دانشوروں کا قرآن کے متعلق کیا خیال ہے۔ ایسے دانشوروں کا جو اس کے حق میں یا اس کے خلاف تعصب نہ رکھتے ہوں، جن کا نقطہء نظر جذباتی نہ ہو بلکہ حقیقت پسند ہو۔
میں نے دیکھا کہ آج کے دانشور اور سائنس دان جنھیں قرآن کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہے، حیران ہیں کہ یہ کیسی کتاب ہے۔ ایسی کتاب تو کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔
ویسے تو چودہ سو سال پرانی ہے لیکن اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو پرانی محسوس ہو۔ کوئی بات ایسی جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ یہ بات پرانے زمانوں میں صحیح مانی جاتی تھی۔
اس کتاب کا انداز اور رخ تازہ اور شگفتہ ہے وہ آج کی سائنسی معلومات سے ہم آہنگ ہے۔
قرآن کی دوسری حیران کن بات یہ ہے اس کا انداز تحکمانہ نہیں۔ عام طور پر مذہبی کتابیں حکم چلاتی ہیں کہ لوگو! یہ کرو، خبردار! وہ نہ کرنا۔ یوں کرو ووں نہ کرنا۔
جو ہم کہہ رہے ہیں اس پر سچے دل سے ایمان لے آؤ۔
خبردار! دل میں شک و شبہات نہ لانا، حجت نہ کرنا ہم جو کہتے ہیں کہ یہ سچ ہے تو پھر شک و شبے کا کیا مطلب۔ پس تم پر فرض ہے کہ اسے سچ مانو۔
محقق اور سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کا انداز Authoritarian نہیں۔ وہ سوچ بچار، عقل یا فکر سے منع نہیں کرتا۔ قرآن کا بات کرنے کا انداز دوسری مذہبی کتابوں سے سراسر مختلف ہے مثلآ قرآن کہتا ہے
” اچھا تو تم اسے سچ نہیں مانتے تو پھر تم ہی سوچو سچ کیا ہے۔ اگر تم نہیں جانتے تو ان لوگوں سے مشورہ کرو جو جانتے ہیں۔
اگر تم اس کتاب کو سچ نہیں مانتے تو ضرور اس میں غلطیاں ہوں گی۔ تضادات ہوں گے یعنی ایسی باتیں جو ایک دوسرے کو جھٹلائیں۔ تم اس کتاب میں غلطیاں تلاش کرو لیکن تم ایک غلطی بھی تلاش نہیں کر سکو گے۔
آج کے سائنس دان اس رویے پر حیران ہیں کیونکہ یہ وہ رویہ ہے جو سائنس دانوں نے اپنا رکھا ہے۔