کتاب : تلاش
باب 6 : یہ خدا ، وہ خدا
ٹرانسکرپشن : منیب احمد
یہ دنیا ، وہ دنیا
میری بات چھوڑیئے میں تو ایک ادھ پڑھ شخص ہوں. پڑھے لکھے دانشور سائنس دان جنہوں نے قرآن کا مطالعہ کیا ہے, وہ بھی قرآن کے کئ ایک نکات کو سمجھنے سے قاصر ہیں. ابھی ہمارا علم , ہماری تحقیق خام ہے, اس لیے ہم قرآن کے گہرے اشارات کو نہیں سمجھ سکتے.
آج کے سائنسدان اور محقق قرآن کی ایک اور خصوصیت کو حیرت سے دیکھتے ہیں. ان کا کہنا ہے کہ:
عام طور پر مذہبی کتابیں اس دنیا اور زندگی کو اہمیت نہیں دیتیں. کہتی ہیں اس دنیا سے منہ موڑ لو. یہ دنیا ایک بصری دھوکا ہے. Illusion ہے. دیکھنا چاہتے ہو تو آنکھیں موند لو. یہ زندگی فانی ہے. اسے حقیقت نہ سمجھو. اس کے برعکس قرآن اس دنیا اور زندگی کو اہمیت دیتا ہے.
قرآن بار بار ہماری توجہ کائنات کی طرف مبذول کرتا ہے. بار بار کہتا ہے: ” تم دیکھو تو ہم نے زمین کو کیسے بنایا ہے. آسمان کو کیسے سجایا ہے. دیکھو تو ہم نے زمین سے بوٹے کیسے اگائے ہیں. تم دیکھو تو سہی. پھر ان چیزوں پر غور کرو”.
ایک جگہ قرآن کہتا ہے:
“یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے.”
“ان کے پاس دل ہیں مگر وہ سوچتے نہیں”.
“ان کے پاس کان ہیں مگر وہ سنتے نہیں”.
“وہ حیوانوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں”.
دوسرے مزاہب کی طرح قرآن یہ نہیں کہتا کہ اس دنیا سے دل نہ لگاؤ. اس دنیا کو تیاگ کر پہاڑ کی کسی کھوہ پر بیٹھ کر خدا کے نام کا جاپ کرو.
قرآن دنیا سے علیحدگی کا سبق نہیں دیتا. الٹا اس دنیا اور زندگی کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے کہ یہی وہ بوٹا ہے جس پر آخرت میں بہشت یا دوزخ کا پھل لگے گا.
دانش ور اور سائنس دان کہتے ہیں کہ قرآن ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ دین اور دنیا میں ہم آہنگی پیدا کرو. توازن پیدا کرو. Adjustment پیدا کرو. لوگوں سے اچھے تعلقات پیدا کرو. اللہ سے بھی اچھے تعلقات قائم رکھو. سکھی رہو ,سکھی رکھو. دوسروں کو اذیت دو نہ خود کو اذیت دو. اسلام دین اور دنیا میں توازن پیدا کرتا ہے.