Talash by Mumtaz Mufti

کتاب : تلاش

باب 2: عالمِ دین

ٹرانسکرپشن : اقرا سمیع

دورِ حاضرہ


کچھ دیر کے بعد عالم دین ڈرائنگ روم میں تشریف لائے۔بڑے اخلاق سے ہم سب سے ملے۔حال احوال پوچھا اور پیشتر اس کے کہ ہم ان سے کوئی سوال پوچھتے انہوں نے دور حاضرہ کی دین سے بے تعلقی بلکہ بے دینی کا تذکرہ چھیڑ دیا۔انکی باتیں بڑی حد تک صحیح تھیں، قابل توجہ تھیں۔ لیکن ان کے انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے دورے حاضرہ ہماری نئی نسل کا پیدا کردہ ہو۔ جیسے نئی نسل نے جان بوجھ کر دین کے خلاف سازش کی ہو اور بڑی پلاننگ اور محنت سے دور حاضرہ کو تشکیل دیا ہو۔
میں چاہتا تھا کہ ان کی خدمت میں عرض کروں کہ عالی جاہ ! دور حاضرہ ہماری نسل کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ عالمی حالات نے دور حاضرہ ہماری نسل پر عائد کیا ہے۔ نئی نسل نے یہ ظلم ہم پر نہیں کیا وہ تو خود مظلوم ہے اور علماۓ دین کی ہمدردانہ توجہ کی مستحق ہے۔

صاحبو ! زندگی بھر میں بڑے بوڑھوں سے دور حاضرہ کے خلاف غم و غصہ کا اظہار سنتا آیا ہوں ۔ جب میں 15۔5 سال کا تھا تو ہمارے محلے کے بڑے بوڑھے دور حاضرہ کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کیا کرتے تھے۔ یہ 20۔1910 کی دہائی کی بات ہے۔ محلے کی بڑی بوڑھیاں دور حاضرہ کو بے نطق سنایا کرتی تھیں ۔ وہ دورہ حاضرہ سے اس قدر زچ تھیں کہ اعلانیہ اسے بد دعائیں دیا کرتی تھیں ۔
اور جناب والا ان دنوں ان کے لئے دور حاضرہ ہم تھے۔ محلے کے پانچ سے اٹھارہ سال کے بچے۔ ہم تعداد میں پندرہ بیس تھے۔ جب ہم اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوتے تو بڑے بوڑھے خصوصاً بوڑھیاں ہمارے وارے نیارے جاتے اور ہمیں اپنی محبت سے لت پت کیے رکھتے لیکن جونہی ہم گھروں سے نکل کر محلے کے چوگان میں پہنچتے تو ہم دور حاضرہ بن جاتے ۔
محلے والوں کو ہم سے یہ شکایت تھی کہ ہم محلے کے چوگان میں کھیلا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی پود بےکار کھیل کود میں وقت ضائع کرتی ہے ، حالانکہ انکا کام ہے کہ وہ گھر بیٹھ کر قرآن کریم پڑھیں یا سکول کا سبق یاد کریں اور بڑوں کے احکامات کے مطابق گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹائیں ، والدین کی خدمت کریں ۔
دراصل ساری مشکل یہ تھی کہ محلے کے بچے گیند سے کھیلتے تھے اور محلے کے چوگان میں جہاں وہ کھیلتے تھے، چاروں طرف نالیاں بنی ہوئی تھیں جن میں گندہ پانی بہتا تھا اور ہمارا گیند کوشش کے باوجود نالیوں میں گر جاتا اور گندے پانی سے بھیگ جاتا تھا۔ پھر اس گیند سے گندے پانی کے چھینٹے اڑتے اور چوگان سے گزرنے والے نمازیوں کے کپڑے پلید ہو جاتے یا ہم گیند کو ہٹ لگاتے تو چوگان کے ارد گرد بنی چھوٹی اینٹ کی حویلیوں کی کھڑکیوں سے گھر کے اندر جا گرتا اور سارے گھر کو پلید کر دیتا۔
اس پر محلے کی بڑی بوڑھیاں کھڑکیوں میں آ کھڑی ہوتی اور نئی پود کو صلواتیں سناتیں دھمکیاں دیتیں اور بد دعائیں دیتیں ۔ وہ گھنٹوں کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر بولتی رہتیں ۔ جب وہ بول بلاوے سے تھک جاتیں اور اندر چلی جاتیں تو چھپے ہوئے ، دبکے ہوئے ، ڈرے ہوئے بچے اپنی کمین گاہوں سے نکل کر پھر میدان میں جمع ہو جاتے۔پھر وہ انتقاماً بوڑھیوں کی نقل لگاتے، انکا مذاق اڑاتے، پھبتیاں کستے اور بڑی بوڑھیوں کی زبان درازیوں سے انتقام لینے کے لیے بڑی محنت سے دس بارہ دنوں میں ایک پٹاخہ تیار کرتے۔جب وہ تیار ہو جاتا تو بڑے اہتمام سے ایک خاص وقت مقرر کرتے ۔ پھر سب سے بڑا لڑکا چوگان کے گرد کی کسی دیوار پر وہ پٹاخہ پورے زور سے دے مارتا۔ ایک دھماکہ ہوتا جسے سن کر محلے کی بڑی بوڑھیاں کھڑکیوں میں آ کھڑی ہوتی اور بول بول کر اپنے گلے پھاڑ لیتیں اور محلے کے تمام بچے جو چھپے بیٹھے ہوتے، خوشی سے پھولے نا سماتے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button