کتاب : تلاش
باب 8 : جہاں گُڑ ہو گا، وہاں چیونٹے تو آئیں گے
ٹرانسکرپشن : رضوانہ رائے
سکہ وہ جو رائج الوقت ہے
ان خطبوں میں اسلام کے متعلق کتنی ڈس انفارمیشن پھیلائی جاتی ہے” اعظمی نے کہا ” اسلام کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے”
اس دوران مسعود قریشی بھی آ گیا- مسعود نے آتے ہی شور مچا دیا، کہنے لگا” یار تم سب کتنے احمق ہو- جسے تم مسخ شدہ کہتے ہو یہی اسلام ھے- جسے تم ڈس انفارمیشن کہتے ہو وہی اسلام ھے-
” تیرا دماغ تو نہیں چل گیا ؟” عمر غصے سے غرایا-
” میرا نہیں ” مسعود نے جواب دیا ” تمہارا دماغ چل گیا ہے- تم سمجھتے ہو کہ اسلام وہ ہے جو کتاب میں درج ہے یا وہ ہے جو پڑھے لکھے عقل مند با خبر لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے- نہیں میرے پیارو ! اسلام وہ ہے جو رائج الوقت ہے- اسلام وہ ہے جو مسجدوں میں خطبوں کے ذریعے پھیلایا گیا- پھیلایا جا رہا ہے”
اس پر سب احتجاجاً چیخنے لگے-
مسعود نے کہا” اچھا یہ بتاؤ پاکستان میں کل کتنی مسجدیں ہوں گی- ہر اڈے پر ہے- ہر شاہراہ پر ہے- شہروں میں ہر محلے میں ہے- مل ملا کے دس لاکھ تو ہوں گی”-
ہاں شاید!” عماد نے کہا-
” تو جان لو دوستو” مسعود بولا: ” کہ ہر جمعے کو ہر تہوار کے دن دس لاکھ مسجدوں میں ایسے خطبے دئیے جاتے ہیں- دیہات کے اسی فی صد لوگ تو ان خطبوں کو حرف آخر سمجھتے ہیں- شہر کے عام لوگ ان خطبوں کو ڈھل مل یقین سے سنتے ہیں – پڑھے لکھے با خبر لوگ ان خطبوں کو سنتے ہیں اور suffer کرتے ہیں ، بولتے نہیں – پھر ریڈیو ٹی وی پر، اخباروں میں ایسے خطبے تقاریر اور مضامین کی صورت میں نشر ہوتے رہتے ہیں”-
اس روز مسعود کی بات نے میری آنکھیں کھول دیں- میں سمجھتا تھا کہ اسلام وہ ہے جو کتاب میں ہے- جو صاحبان غوروفکر کے ذہن میں ہے یا جس کا پرچار بزرگان دین، اولیاء کرام یا صوفیاء اکرام نے کیا ہے- میں نے زندگی میں پہلی بار اس حقیقت کو جانا کہ اسلام وہ ہے جو رائج الوقت ہے۔ جسے ملا نے رائج کیا ہے اور یہ پاکستان میں دس لاکھ نشر گاہوں پر قابض ہیں – وہ اسلام کے صرف ان پہلوؤں کو boost کرتے ہیں جن سے انکی ذات کو اہمیت ملے، ان کے توہمات کا پرچار ہو-