ہم سب آزاد ہیں – فاریہ حمید چودھری
14اگست 1947 کے سنہری دن ہمارے اباواجداد آزاد ہوئے،سنسکرت کی گتھیوں سے،اور مندر کی گھنٹیوں سے،ماں بولی مری آزاد ہوئی ۔پہچان کو آئینہ میسر آیا۔پاکی اور ناپاکی کے درمیان حد فاصل قائم ہو گئی عید قرباں پر گائے کی قربانی کو تقدس ملا۔گنگا کا پوتر پن اپنی حدوں میں سمٹ گیا۔۔۔پانچ دریاوں کی روانی کے ساتھ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں ،خیبر کی وادیوں،سندھ کی ریتلی مٹھاس ۔۔۔ہماری حدیں متعین ہوئیں ۔۔۔گرچہ جونا گڑھ ،حیدر آباد اور جموں کشمیر کا زاد راہ پر مسافتیں شب خوں مار گئیں،مگر ہم آزاد ہوئے قائداعظم کے گورنر جنرل بننے سے لے کر ایمبولینس میں آخری سانس لینے تک،لیاقت باغ میں ،لیاقت علی کے آخری مکا لہرانے تک ہم آزاد رہے۔۔۔پھر ایک عجیب ہوا وطن کی گلیوں میں چلی۔۔۔راستے اپنا قد ماپنا بھول گئے،منزلیں سر نیہیوڑائے مسافروں کا انتظار کرنے لگیں،اور مسافر قدم آغاز کرنا بھول گئے۔۔۔آزاد نگری میں سلاسل کی جھنکار صبح شام گونجتی رہی۔۔۔چار سال کبھی گیارہ،کبھی نو سال،فکر پر پہرے،سوچ پہ قدغن لگی ،آزاد چمن میں پرواز پر پابندی تھی ۔۔۔کہیں مذہبی غلامی ، سیاسی غلامی کہیں معاشی غلامی، کردار و عمل نےبھی طوق پہنے ،آجر آزاد تھے مزدور غلام ، سود در سود ، نسل در نسل غلام ۔اس کی کرنسی آزاد ، میرا پیسہ حقیر اور غلام ۔ میں نے جب جب اپنے وطن کی تاریخ پڑھی۔۔۔نم پلکوں سے پڑھی،جب کبھی تنویر صبح نے کرنیں چمکائیں۔۔۔دار پر وارا گیا۔۔۔گلیوں میں پھرنے لگے مہیب سائے۔۔۔پس زنداں آہ نیم شبی کی جھلک ہی دیکھی۔۔۔ نہیں معلوم کون ہے جو آزاد رہنے نہیں دیتا۔۔۔مردہ لفظوں کے انبار سینوں میں لگا دیتا ہے،کبھی بنگال کو دیش بنا دیتا ہے،شام میں پھول جلا دیتا ہے۔۔۔مسجد اقصی کی دیواریں روتی ہیں ،کوئی سنتا ہی نہیں،کون ہے جو آزاد ہونے نہیں دیتا۔۔کشمیر میں چنار جلتے ہیں وہ آگ بجھانے نہیں دیتا، میں تو تیار ہوں آزاد ہونے کو ،وہ مجھے آزاد ہونے نہیں دیتا ۔