Talash by Mumtaz Mufti

کتاب : تلاش

باب 1 : جذبۂ احترام

ٹرانسکرپشن : مریم جگنو

بہشت


اس پر آپ کہیں گے کہ میاں تم تو رن مرید ہو۔
آپ درست فرما رہے ہیں۔ میں واقعی رن مرید ہوں۔بلکہ الحَمْدُ ِلله میں رن مرید ہوں۔
ایک روز میرے دوست قدرت اللہ شہاب نے مجھ سے پوچھا۔
” مفتی صاحب ! کیا آپ بہشت میں رہنا چاہتے ہیں؟“
میں نے کہا ” کیا وہ بہشت جس میں دودھ کی نہریں بہتی ہیں۔کھانے کو پھل ملتے ہیں اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں مٹھی چاپی کرتی ہیں میں ایسی جنت کو Conceive نہیں کرسکتا۔اس کے مفہوم کو نہیں سمجھ سکتا۔اس لۓ کہ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں دکھ نہیں وہاں سکھ نہیں ہو سکتا۔دکھ اورسکھ دو چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔“
شہاب بولے۔” نہیں میں اس جنت کی بات نہیں کر رہا۔“
” تو پھر؟“
بولے” اس زندگی کی جنت کی بات کر رہا ہوں کیا آپ اس زندگی میں جنت میں رہنا چاہتے ہیں؟“
” بالکل رہنا چاہتا ہوں۔“
بولے ” بڑا آسان نسخہ ہے۔“
میں نے کہا ” بتاٸیے“
بولے ” اپنی بیوی کی ہر بات کے جواب میں ٰ ہاں جی ٰ کہہ دیا کیجٸیے۔“ تو جناب گزشتہ آٹھ سال سے میں جنت میں رہتا ہوں۔کاش کہ یہ اسم اعظم مجھے پہلے مل جاتا۔تو میں سالہا سال جہنم میں رہنے سے بچ جاتا۔“
میری بیوی ان پڑھ ہے لیکن وہ سمجھتی ہے کہ وہ دنیاوی مساٸل کو مجھ سے بہتر سمجھتی ہے۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ سمجھتی ہے کہ میں دنیاوی باتوں میں قطعی طور پہ ناسمجھ ہوں۔اس نے کبھی میری کسی بات سے اتفاق نہیں کیا۔وہ میرے لکھنے لکھانے کے بھی خلاف ہے۔کہتی ہے کیوں جھوٹی کہانیاں لکھ لکھ کر اپنی عاقبت خراب کرتے ہو۔
ایک بار ”نواۓ وقت“ کے ایڈیٹر صاحب ہمارا انٹرویو لینے کے لۓ آۓ۔کہنے لگے کہ میاں بیوی دونوں کا انٹرویو لیں گے۔میں نے کہا ٹھیک ہے جب بیگم کی باری آٸی تو اس نے سخت نقطہ چینی شروع کر دی۔ایڈیٹر صاحب نے پوچھا۔ محترمہ! آپ کے میاں میں کوٸی تو خوبی ہوگی۔بیگم بولی۔ اگر کوٸی ہوتی تو میں آپ سے کیوں چھپاتی بھلا۔ان حالات میں ہماری سابقہ زندگی بسر ہوٸی تھی۔
صرف قرآن کریم کی بات نہیں میری بیوی کا حکم ہے کہ کوٸی کتاب یا جریدہ فرش یا بستر پر نہ رکھا جاۓ،اس لۓ کہ شاٸد اس میں کوٸی آیت لکھی ہو۔
میرے لۓ قرآن پڑھنے کی صرف ایک صورت ہے کہ کوٸی ایسا نسخہ تلاش کروں جس میں عربی متن نہ ہو صرف ترجمہ ہو۔
میں نے بڑی کوشش کی ایسا نسخہ مل جاۓ مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہوا۔
میرے ایک دوست ہیں محمد طفیل۔پڑھے لکھے ہیں۔ساری دنیا میں گھومے پھرے ہیں۔
انڈسٹریلیسٹ ہیں۔ماڈرن خیالات کے حامی ہیں۔ قرآن کے پروانے ہیں۔ان کی زندگی کا واحد مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی توجہ قرآن پہ مزکور کریں۔قرآن سوچو۔ قرآن جیو۔ وہ قرآن اور اس سے متعلقہ کتابیں لوگوں میں مفت بانٹتے ہیں۔
ایک روز میری عدم موجودگی میں میرے گھر آۓ۔اور قرآن کریم کے چند قیمتی نسخے چھوڑ گۓ۔میں حیران ہوا کہ یہ کون شخص ہے جو ہزاروں روپیوں کی کتابیں چھوڑ گیا ہے۔اس کے بعد جب پہلی بار ان سے ملاقات ہوٸی تو میں نے ان سے پوچھاکہ آپ اتنے قیمتی نسخے مجھے کیوں دے رہے ہیں۔
بولے، میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں آپ کی تحریر میں اثر ہے۔نوجوان آپ کی تحریریں پڑھتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو communication کا گفٹ عطا کیا ہے۔میں یہ نسخے اس لۓ آپ کو دے رہا ہوں کہ شاٸد آپ اس سے استفادہ کر کے اپنی تحریروں میں قرآن کے پیغامات کا ذکر کریں۔
میں ان کی بات سن کر ہکا بکا رہ گیا۔
میں نے کہا۔ ” طفیل صاحب! میں تو دینی تعلیم سے بے بہرہ ہوں۔جاہل مطلق ہوں زبان پر قادر نہیں ہوں۔
میری بیوی اتنے سارے حجیم قرآن دیکھ کر گھبرا گٸی۔بولی، اب میں اتنے سارے جزدان کیسے بناٶں۔اور میں انھیں کہاں رکھوں؟ الماریاں تو لٹر سٹر سے بھری ہیں۔ آپ یہ قرآن بصدشکریہ ان کو واپس کر دیں۔
صاحبو! جان لو یہ سب جذبہ احترام کی وجہ سے ہے۔ہمارا جذبہ احترام اس قدرسفاک ہو چکا ہے کہ
وہ ہمیں قرآن پڑھنے نہیں دیتا۔
باپ سے محبت کرنے نہیں دیتا۔
صوفیاۓ کرام کو انسان سمجھنے نہیں دیتا۔
ہمارا جذبہ احترام ایسا ہی ہے جیسا کبھی انگلستان کے عوام میں جذبہ ہمدردی جاگا تھا۔
لوگوں کو پتہ چلا کہ ساٸنسدان تحقيقی تجربات کے لۓ مینڈکوں کو کاٹتے ہیں۔
لوگوں نے احتجاج کیا کہ یہ ظالمانہ فعل ہے۔
عوام کا نماٸندہ وفد ساٸنسدانوں سے ملا۔انھوں نے ساٸنس دانوں کو خبردار کیا کہ جانوروں پہ ظلم نہ کریں۔
ساٸنس دانوں نے وفد کو سمجھایا۔کہنے لگےکہ یہ کام ہم بنی نوع انسان کی بہتری کے لۓ کر رہے ہیں۔ وفد نے کہا کہ بنی نوع انسان کی بہتری اور طرح سے بھی ہو سکتی ہے۔ساٸنس دانوں کی سمجھ میں بات نہ آٸی اور وہ مینڈکوں کو کاٹنے سے باز نہ رہے۔
لوگوں کا جذبہ ہمدردی مزید جوش میں آ گیا۔وہ لیبارٹریز کے گرد چھپ کر ساٸنس دانوں کا انتظار کرنے لگے۔جو بھی ساٸنس دان آتا، اس پر حملہ کر دیتے۔
یوں مینڈکوں کی ہمدردی سے سرشار لوگوں نے ساٸنس دانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ایسے ہی جذبہ احترام سے سرشار لوگوں نے قرآن کو جذدانوں میں بند کردیا۔مسلمانوں کو قرآن کریم پڑھنے سے محروم کر دیا۔قرآن کو بت بنا کر الماریوں میں منتقل کر دیا۔
صاحبو! جذبہ احترام بڑا طاقت ور جذبہ ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اگر اللہ میں ہمارے ہاتھ آ جاٸیں تو ہم جذبہ احترام کے تحت ان پر مشک کافور چھڑک کر لوبان کی دھونی دے کر اپنی الماری کے اوپر والے خانے میں بت بنا کر سجا دیں گے۔
کچھ دیر کی بات ہے۔رمضان شریف کے دن تھے۔گرمیوں کا موسم تھا۔ دوپہر کا وقت تھا۔میں ریل گاڑی میں سفر کر رہا تھا۔ہمارےڈبے میں اوپر تختے پر ایک نحیف و نزارمسافر لیٹا ہوا تھا۔وہ مسلسل کراہ رہا تھا۔ ظاہر تھا کہ بیمار ہے۔اس کے ساتھ ایک نوجوان لڑکاتھا جو نیچے سیٹ پر ہمارےساتھ بیٹھا ہوا تھا۔
لڑکا بار بار اٹھ کر مریض سے پوچھتا تھا۔
مریض کو کھانسی چھڑ گٸ جو بند ہونے میں نہ آتی تھی۔اتفاق سے سٹیشن آ گیا۔ لڑکا گاڑی سے اترا اور مریض کے لۓ ایک بوتل لے آیا۔اس پر ڈبے میں بیٹھے ہوۓ دومعزز آدمی اٹھےاور لڑکے کا راستہ روک کر کھڑے ہوگۓ۔
ایک بولا، لڑکے تو رمضان شریف کی بےحرمتی کررہا ہے۔
دوسرے نے کہا ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
اس پر میں نے ان معزز صاحبان کی منت کی ۔میں نے کہا، مریض کا کھانسی سے برا حال ہو رہا ہے۔ازراہ کرم اجازت دے دیجٸیے۔
انھوں نے حقارت سے میری جانب دیکھا۔انداز میں تشدد تھا۔میں خوف ذدہ ہو گیا۔
ایک صاحب بولے،” اگر مریض کو کوک پلانی ہے تو اسے دوسرے ڈبے میں لے جاٸیں ہم یہاں رمضان شریف کی بے حرمتی نہیں ہونے دیں گے۔“
ان کا جذبہ احترام خام نہیں تھا۔دکھاوا نہیں تھا اصلی تھا۔ایک ساعت کے لۓ مجھے خیال آیا کہ شاٸدوہ مجھ سے بہتر مسلمان تھے۔
پھر مجھے شہادت کا واقعہ یاد آگیا۔
برصغیر کی تقسیم سے پہلے کی بات ہے جب گورے ہم پہ راج کرتے تھے۔
گرمی کا موسم تھا۔رات کا وقتتھ۔ گورا صاحب بنگلے کے بیک یارڈ میں مچھر دانی لگاۓ سورہاتھا۔ پٹھان چوکیدار راٶنڈپر آیا اس نے دیکھا کہ گورا صاحب قبلے کی طرف پاٶں پسارے سو رہا ہے۔چوکیدار نے جھنجھوڑا، بولا ” صاحب جی اس طرف پاٶں مت کرو، ادھر ہمارا قبلہ ہے“ صاحب کو بات سمجھ نہ آٸی۔اس نے چوکیدار کی بات کو اہمیت نہ دی اور سر ہانے پر سر رکھ کر پھر سو گیا۔
چوکیدار دوبارہ راٶنڈپہ آیا تو دیکھا کہ صاحب قبلے کی طرف پاٶں کیے سو رہا ہے۔اس نے پھر صاحب کو جھنجھوڑا۔اب کی بار صاحب چڑ گیا۔اس نے چوکیدار کو سناٸیں اور پھر لیٹ کر سو گیا۔چوکیدار اس بے حرمتی کو برداشت نہ کر سکا۔اندر سے کلہاڑ اٹھایا اورصاحب کی گردن کاٹ دی۔چوکیدار پر مقدمہ چلا۔کچہری میں اس نے اقبال جرم کر لیا۔بولا ” ہم نے اسے دو بار خبردار کیا کہ ادھر ہمارا قبل ہے ادھر ٹانگیں کر کے مت لیٹو۔ہمارے قبلے کی بے حرمتی ہوتی ہے۔یہ باز نہ آیا تو ہم نے اس کا گردن کاٹ دیا۔“
چوکیدار کو پھانسی کی سزا ہو گٸ۔سارا شہر امڈ آیا۔انھوں نے نعرے لگاۓ کہ یہ پھانسی نہیں شہادت ہے۔چوکیدارکی قبر پر مزار تعمیر کیا گیا۔شہید کا کتبہ لگا دیا گیا۔وہاں باقاعدہ قوالی ہونے لگی۔عرس منایا جانے لگا۔
رات کو لیٹے ہوٸے میں سوچ رہاتھا کہ شاٸد چوکیدار مجھ سے بہتر مسلمان تھا۔شاٸداسلام جذبے ہی کا نام ہے۔دیوار پر لگی ہوٸی مکہ معظمہ کی تصویر میں حرکت ہوٸی۔اور وہ تصویر سے نکل کر میرے سامنے صوفے پر آ بیٹھا۔
میں نے چیخ کر کہا۔ ” تو جو دلوں کے بھید جانتا ہے مجھے بتا کہ مسلمان کون ہے؟“
اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گٸی۔۔۔۔۔۔ بے نیازی بھری مسکراہٹ۔
***

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button