کتاب : تلاش
باب 2 : عالمِ دین
ٹرانسکرپشن : عظمٰی مظہر
صوم و صلوٰۃ
عما د یوں ڈوب کر پڑھتا ہے کہ گرد و نواح کا ہوش نہیں رہتا ۔ اسے نماز پڑھتے دیکھو تو لگتا ہے جیسے لذت سے لت پت ہو ۔
چند ایک سال کی بات ہے کہ ایک بزرگ تشریف لاۓ۔ انہوں نے عماد کو نماز پڑھتے ہوۓ دیکھ لیا ۔ کہنے لگے، میاں آپ نماز نہیں پڑھتے، لذت حاصل کرتے ہیں ۔
مسعود بولا: ” عالی جاہ ! جب یہ نماز پڑھتا ہے تو لگتا ہے جیسے بڑا ہی شیریں آم چوس رہا ہو۔ “
بزرگ کہنے لگے : ” ہم تو اسرار و رموز سے واقف نہیں ہیں، البتہ ہمارے سرکار قبلہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر عبادات میں لذت آنے لگے تو رک جاؤ۔ چونکہ لذت مقصود نہیں ہے، بلکہ رکاوٹ ہے ۔”
بہرحال میرے دوست صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں لیکن کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ مسلمان کا مطلب کیا ہے ۔ وہ میرے سوال کو سن کر ہنس دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں ۔ دیکھو کو ئی بھی تو نہیں جو جانتا ہو کہ مسلمان کا مطلب کیا ہے ؟،
مسعود بولا ، دیکھ مفتی ! جس شہر میں تو رہتا ہے ، یہاں سب مسلمان رہتے ہیں ۔ سبھی پڑھے لکھے ہیں ۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ۔ اللّه اور اسکے آخری پیغمبر حضرت محمد ؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو سچے دل سے مانتے ہیں ۔ لیکن انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ مسلمان کا مطلب کیا ہے ۔ تو تو خوامخواہ اس جھگڑے میں پڑا ہے ۔ اچھا فرض کرو، تمہیں پتا چل جاتا ہے کہ مسلمان کا مطلب کیا ہے تو کیا تو سنجیدگی سے اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھال لے گا ؟”
عمر نے قہقہہ لگایا ۔ کہنے لگا ” یار چھوڑو ! یہ مفتی تو سراسر منہ زبانی ہے۔ اسکی زندگی عمل سے یکسر خالی ہے ۔ عمل کی سرے سے صلاحیت ہی نہیں ہے اور مسلمان تو وہ ہوتا ہے جو سراسر عمل ہو۔ مثلاً عماد الدین ہے، یہ صاجب عمل ہے ۔”
“اوں ہوں ! ” مسعود نے کہا، “عماد تو صرف صاحب عبادات ہے، صاحب عمل نہیں۔ مثلاً یہ ہاتھ کا کھلا نہیں۔ جب دینے کا وقت آتا ہے تو ہاتھ رک جاتا ہے ۔ مسلمان کا ہاتھ نہیں رکتا، توفیق ہو یا نہ ہو، ہاتھ کھلا رہتا ہے “۔
“عماد کھسیانی ہنسی ہنسا ۔ بولا، ” میں نے کب دعویٰ کیا ہے کہ میں صحیح مسلمان ہوں۔ مجھے خود علم نہیں کہ مسلمان کون ہے ۔ ہاں، مفتی ! اگر تم چاہو تو ہم یہ مسئلہ ان سے پوچھ سکتے ہیں۔ “
“کن سے پوچھ سکتے ہیں ؟ “عمر نے پوچھا۔
“ایک صاحبِ دین یہاں تشریف لاۓ ہوۓ ہیں ۔ عمر رسیدہ ہیں، صاحب علم ہیں ، محترم ہیں ۔ اگر آپ چاہیں تو ہم ان سے فون پر بات کر کے حاضری کی اجازت طلب کر سکتے ہیں ۔ ان سے بات چیت کے دوران ہم ان سے سوالات پوچھ سکتے ہیں ۔ ممکن ہے وہ تمہیں مطمئن کر سکیں “۔
عماد نے صاحب دین سے اجازت حاصل کی اور اگلے روز ہم چاروں ان کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔