کتاب : تلاش
باب 3 : نئی نسل
ٹرانسکرپشن : فرحین فرحان
ہڈ بیتی
یہ عظیم حقیقت مجھے میرے بیٹے نے سکھائی تھی۔ جب وہ 20 سال کا ہوا تو ایک روز وہ میرے پاس آیا۔ کہنے لگا بابا ! میں تجھ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا پوچھتا کیوں ہے۔ شوق سے بات کر، جو بھی کہنا چاہتا ہے کہہ، تجھ پر کوئی بندش نہیں ہے۔ کہنے لگا بابا میں نے بیس سال تک اپنی زندگی آپ کے خیالات کے مطابق گزاری ہے۔ اب مجھے اجازت دیجیئے کہ باقی زندگی میں اپنے خیالات کے مطابق گزارلوں۔ اس کی یہ بات سن کر ایک دھماکہ ہوا، مجھے یوں لگا جیسے صور پھونک دیا گیا ہو۔ میرے پرخچے اڑ گئے، لیکن آپ اس بات کو نہیں سمجھیں گے، جب تک میں آپ کو” باپ بیٹے”کی کہانی نہ سنا دوں۔ جب عکسی چار سال کا ہوا تو اسکی والدہ فوت ہوگئی اور ہم باپ بیٹے اکیلے رہ گئے۔ ان دنوں میں سکول ماسٹر تھا۔ سکول جاتا تو عکسی کو انگلی لگا کرساتھ لے جاتا۔ جب تک میں پڑھاتا رہتا عکسی دیوار سے لگ کرکھڑا رہتا۔ بازار جاتا تو اسے ساتھ لے جاتا۔ ہم دونوں اکیلے رہنے پر مجبور تھے۔ کوئی ہمارا ساتھ دینے کو تیار نہیں تھا۔ عکسی کو علم نہ تھا یہ باپ کے مکافات عمل کا نتیجہ ہے۔ باپ نے جوانی میں کانٹے بوئے تھے۔ بیٹا لہولہان ہو رہا تھا، ہمارا کوئی والی وارث نہیں تھا ،رشتے دار نہ عزیز۔ ہم اکھٹے رہتے تھے۔ اکھٹے سوتے تھے، اکھٹے باتھ روم جاتے تھے۔ ہم باپ بیٹا نہ تھے، دو ساتھی تھے۔
پھرعکسی بڑا ہو گیا اورمیرا تبادلہ کراچی ہوگیا۔ وہاں میراایک دوست تھا قیصر۔ قیصر میرا بھانجا بھی تھا اور دوست بھی۔ بھانجا کم کم دوست زیادہ۔ قیصرلنڈورا تھا۔ دو سال اس نے ہمیں لنڈورا بنائے رکھا۔ سارا دن ہم کراچی میں آوارہ گردی کرتے۔ بازاروں میں چلتے پھرتے، گنڈیریاں چوستے، سٹالوں پر کھڑے ہوکر کباب کھاتے، کافی ہاؤس میں پیالے پر پیالہ انڈیلتے اورپھر شام پڑتی تو کسی سینما میں فلم دیکھتے رو زبلاناغہ۔ ساری عیاشی قیصر کی وجہ سے تھی، میں تو قلاش تھا، وہ امریکی دفتر میں افسر تھا۔
کوئی ہمیں دیکھ کر یہ جان نہ سکتا تھا کہ تینوں میں ایک باپ اور ایک ماموں ہے۔ ایک بھانجہ ہے، ایک بیٹا ہے، میں خود پر بڑا خوش تھا، میں خود کو شاباش دیتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ میں وہ باپ ہوں جس نے اپنے بیٹے پر حکم نہیں چلایا۔ اسے نصیحت نہیں کی۔” من نا کردم شماحذر بکبنید” قسم کی نصیحت۔ میں وہ باپ ہوں جس نے بیٹے کو دوست بنائے رکھا، ساتھی بنائے رکھا۔ میں دل ہی دل میں کہتا تھا لوگو! میرے گلے میں ہار ڈالو، مجھے ایوارڈ دو، میں وکٹوریا کراس قسم کےایوارڈکا مستحق ہوں۔ ان خیالات کے مطابق زندگی بسر کر لوں، تو ایک دھماکہ ہوا، اچانک دھماکہ، میرے پرخچے اڑگئے، میری بوٹی بوٹی فضا میں بکھر گئی۔ میں نے کہا جاؤ بیٹا جاؤ!، اپنی عمرجیو، اپنا دور جیو۔ اس نے کہا بابا میں اپنے دوست بناؤں گا۔ میں اپنے ہم عمروں میں رہوں گا۔ میں اپنا دورجیوں گا۔ تین ماہ بعد وہ واپس آ گیا۔ میں نے کہا عکسی تم واپس کیوں آ گئے؟ بولا، بےکار ہے بابا! تمہارے ساتھ رہ رہ کرمیں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ تم نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔ میرے ہم عمروں نے مجھے Rejectکر دیا ہے وہ کہتے ہیں تم ہم میں سے نہیں ہو۔ یو ڈونٹ بیلانگ ٹو اس۔ تم ہمارے دور کے نہیں ہو، بڈھے طوطے گٹ آؤٹ۔ بابا جو حرکتیں وہ کرتے ہیں ، میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ ان میں شمولیت نہیں کرسکتا تھا۔ مجھے ان کی باتیں” ٹچ” لگتی تھیں، احمقانہ، شہدی۔ اس روز میں نے شدت سے محسوس کیا کہ ہر نوجوان کے لئے اپنا دورجینا کتنا ضروری ہوتا ہے۔ اپنا دور جینے کے بغیر کسی فرد کی تکمیل نہیں ہوتی۔ صاحبو! یہ صرف میری رائے ہی نہیں، آپ ، میں، ہم سب اس حقیقت کو دیکھتے ہیں، جانتے ہیں، لیکن دیکھ کر آنکھ چرا لیتے ہیں، ہم میں اتنا حوصلہ نہیں کہ ایک ایسی حقیقت کو دیکھیں۔ ہم ہر Unpleasent حقیقت کو دیکھ کر اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اس کبوتر کے مصداق ہیں جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا ہے اور کہتا ہے، خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ سب اچھا، سب اچھا۔