کتاب : تلاش
باب 11 : پلاؤ کی دیگ
ٹرانسکرپشن : اقصیٰ حنیف
اے پتر
صاحبو ! صوفی غلام مصطفیٰ تبسم بڑا عالم تھا، استاد تھا، شاعر تھا۔ اس سے غلطی ہو گئی۔ اس نے لکھ دیا :
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
کیوں لبدی پھریں بازار کڑے
اسے لکھنا چاہئیے تھا :
اے پتر بنگلیاں اچ نئیں لبدے
کیوں لبدی سلاماں باد کڑے
صاحبو ! اے پتر دین ہے غربت کی۔
1965ء کی جنگ میں اگر ان پتروں کی یلغار کو نہ روکا جاتا تو آج پاکستان کی شکل کچھ اور ہوتی اور انھیں روکا کس نے ؟ تنخواہ دار مفاد پرستوں نے جو ڈالروں کے عوض بکے ہوئے تھے۔
صاحبو ! میں مستحق نہیں ہوں جو غربت کی عظمت کی تصویر کشی کر سکوں، صرف چند ایک باتیں جانتا ہوں،
1۔ غربت میں اللہ قریب آ جاتا ہے۔
2۔ غربت ایک دوسرے سے ہمدردی کا درس دیتی ہے۔ غربت کے زور پر ابھی تک ہمارے ہاں فیملی قائم ہے۔ یورپ میں فیملی ٹوٹ چکی ہے۔ بچی کھچی پر جھاڑو پھر رہا ہے۔ جہاں فیملی نہیں، وہاں رشتے نہیں۔ وہاں انسان سوشل اینیمل نہیں بلکہ سٹیٹس اینیمل ہے۔
3۔ غربت خدمت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔
4۔ مشاہیر کا کہنا ہے کہ دنیا می۔ جو بڑا آدمی پیدا ہوا، عالم، سائنس دان، محقق، سوشل ورکر، ٹیکنیشن، وہ ہمیشہ غریبوں میں سے ابھرا ہے۔ آج تک دولت مندوں نے کوئی بڑا آدمی پیدا نہیں کیا۔ دولت مندوں نے ہمیشہ عیاش لوگ پیدا کیے ہیں۔