کتاب : تلاش
باب 12 : دشمنی یا خوف
ٹرانسکرپشن : شبانہ حنیف
امریکہ کی سسٹر امینہ
جو امریکہ کے سنڈے سکولوں میں عیسائیت کی تعلیم دیا کرتی تھیں ، لکھتی ہیں:
” مجھے مسلمانوں سے سخت نفرت تھی۔ میرے نزدیک جیسا کہ عام یورپین سمجھتے ہیں ، اسلام وحشت اور جہالت کا مذہب تھا اور مسلمان غیر مہذب، عیاش ، عورتوں پر ظلم کرنے والے ، اپنے مخالفوں کو زندہ جلا دینے والے لوگ تھے۔ امریکا اور یورپ کے عام مصنفین اور مؤرخ یہی لکھتے آ رہے ہیں۔ “
” یہ تو خیر پرانی باتیں ہیں جو کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہیں۔ آج کی بات بھی سن لیجئے جس کو ہفت روزی ” تصویر پاکستان ” کے 23 ستمبر کے شمارے میں جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں سنڈے ٹائمز لندن کی حالیہ اشاعت کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں : ” میرا خیال تھا اسلام ایسا جال ہے جو جکڑ لیتا ہے۔ زندگی کی ساری آسائشیں ، آرام اور آزادی شجر ممنوعہ ہوجاتی ہے اور مسلمان…ایک بدتہذیب ، اجڈ اور وحشی قوم ہیں جو بات بات پر تلواریں سونت کر گلے کاٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ محبت کرنے والوں کو سنگسار کر دیتے ہیں۔ شراب پینے والوں پر کوڑے برسائے جاتے ہیں۔ مرد چار چار عورتیں رکھتے ہیں جو گھروں میں بڑی غلامانہ زندگی گزارتی ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔ اپنے اسی تصور کی وجہ سے میں لندن اور اس کے گردونواح میں مسلمان آبادیوں سے بچ بچا کر رہتی تھی۔ لیکن ایک دن مجھے مذاہبِ عالم پر کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا تو محسوس ہوا مصنف جہاں اسلام کا ذکر آتا ہے ، فوراً جانبدار ہو کر اس کے خلاف تبلیغ شروع کر دیتا ہے اور اس سلسلے میں اس کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں ہوتی۔ مجھے تجسس ہوا اور میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا اور پھر تیسرے مہینے مسلمان ہو گئ۔
یہ ماریہ ہے جو یورپ ، آمریکا ، آسٹریلیا اور مشرق بعید کے ان ڈیڑھ لاکھ افراد میں سے ایک ہے جو پچھلے چند برسوں کے دوران حلقہ بگوش اسلام ہوۓ۔ اس کا انکشاف ” سنڈے ٹائمز ” نے اپنی حالیہ اشاعت میں کیا۔ اخبار کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران برطانیہ کے دس ہزار انگریز شہریوں نے اسلام قبول کیا۔