لکھ یار
چودھویں کا چاند………….نوشابہ جواد
آج چودھویں کا چاند تھا۔چاند میری کھڑکی سے صاف نظر آرھا تھا۔کمرے میں اندھیرا ھونے کے باوجود روشنی تھی۔پورے چاند کی مکمل خوبصورتی مجھے مجبور کرنے لگی کہ میں اسے دیکھوں۔میں چاند کو ایک ٹک دیکھنے لگی۔مگر کیا غضب ھوا کہ آنکھوں میں یادیں اترنے لگیں۔چاند جو کھڑکی کے پاس تھا۔دور آسمان پہ چلا گیا۔اور یادیں قریب آنے لگیں۔کبھی چاندنی رات میں کسی کے ساتھ ساتھ دور تک چلنا۔تو کبھی چودھویں کے چاند کو دیکھ دیکھ کر آپس میں باتیں کرنا۔جانے کب آنکھیں چاند سے ھٹ کر ایک دوسرے پر ٹھہر جاتیں۔اور باتیں وھیں ختم ھو جاتیں۔ میں یادوں کے جنگل میں روز بھٹکتی اور چاند میرے ساتھ ساتھ چلتا۔میری آنکھوں سے ستارے گرتے رھتے۔مگر چاند میرے ساتھ رھتا۔اور جب چودھویں کے چاند میں کسی کا چہرہ تلاش کرتی تو چاند روٹھ کر پھر سےآسمان پہ چلا جاتا۔شاید اسے بھی شراکت پسند نہ تھی۔