لکھ یار
خزاں…………………شہزاد حیدر بٹ
خزاں۔۔۔ خزاں ایک پل ہے۔ کوشش ہے فقط۔۔ گرمی سے جھلسے لوگوں کو امید کی کرن دکھاتی ہے۔۔ آؤ میری پشت پر چل کر یہاں سے دور، پر سکون ٹھنڈی جگہ پر پہنچ جاؤ۔۔ میں خزاں ہوں، لوگ مجھ سے اداس ہوتے ہیں لیکن میں نے بہار کی طرح کب تم کو اپنے اوپر سوار کر کے کڑاکے دار سورج کی تپش کے سپرد کیا ہے؟؟ میں خزاں ہوں اداس۔۔ اداس لوگوں کو بھاتی ہوں، اُداسی میں لگن ہوتی ہے کچھ کرنے کی، کسی کے لیے مر مٹنے کی۔۔۔ نہ جانے کیوں میں بہت ہی مختلف پاتا ہوں خود کو۔۔ اُداسیوں میں سماتا ہوں خود کو۔۔ خزاں کے ساتھ ہی میرا وجود، انگ انگ خوشی سے بھر جاتا ہے،، جیسے میں اپنے دیس میں پاتا ہوں خود کو۔۔ خزاں کی ٹھنڈی دھوپ،، خالی درخت،، بہت اُداسی، بہت بہت بھاتی ہے مجھ کو.. جیسے کوئی مسافر اپنے وطن لوٹ آیا ہو۔۔۔