لکھ یار

جھوٹ کی دریافت کیسے ہوئی؟

سہیل تاج

یہ اُس وقت کی بات ہے جب ناول، کہانی اور افسانہ نگاری وجود میں نہ آئے تھے، لوگ خوشحال تھے اور جدید دورکی lieسہولیات ان کو میسر تھیں۔لوگ باگ موٹر کارسے زیادہ ہوائی جہاز میں سفرکرتے ، نوکری ،ملازمت اور کاروبار سے معاش حاصل کرتے، تفریح کے لیے سنیمااورٹی وی کا استعمال کیا جاتا۔۔ غرض ایسی ہر سہولت موجود تھی جس کا تصور اچھی زندگی گزارنے کے لیے کیا جا سکتا ہے مگرحیرت انگیز طور پرلوگوں نے تاحال جھوٹ بولنا نہیں سیکھا تھا۔لوگ ایک دوسرے سے سیدھی اورکھری بات کہتے خواہ وہ تلخ ہی کیوں نہ ہو۔ الصبح کسی سے ملاقات پررائے دیتے کہ آپ بالکل اچھے نہیں لگ رہے، آپ کا وزن بہت زیادہ ہو گیا ہے اور اس سے آپ کی بدصورتی میں اضافہ ہوا ہے ۔اس کے علاوہ ٹی وی پر مارکیٹنگ کے لیے اشتہار بازی کی مہم بھی چلائی جاتی البتہ اس کی نوعیت آج کے اشتہارات سے یکسر مختلف ہوا کرتی، اشتہار میں دو ٹوک کہا جاتا ، ہمارا مشروب استعمال کریں ، اس میں موجود شوگر اور کاربونیٹ آپ کی صحت کے لیے مضر ہیںاس کے باوجود مشروب کا استعمال کریںکیونکہ مشروب کی خریداری ہمارے لیے نفع بخش ہے۔
جھوٹ کی عدم موجودگی کی داستان اپنے آپ میں متبادل حقیقت ہے جس کی عکاسی2009میں ’ رکی گروس‘ اور’ میتھیو راہنسن‘ نے فلم ”جھوٹ کی دریافت کیسے ہوئی“ (The Invention of Lying) میں کی ہے۔ فلم کی کہانی اس کے مرکزی کردار مارک بیلیسن کے گرد گھومتی ہے جو کہ ایک ناکام سکرپٹ رائٹر ہے۔ چودھویںصدی پر فلم کا مسودہ لکھنے میں ناکامی کی پاداش میں اسے نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے اور اس صورتحال میں اس کی کل پونجی تین سو ڈالرہے جبکہ گھر کا کرایہ آٹھ سو ڈالر ہے۔ مارک خیال کرتا ہے کہ وہ اپنے اکاﺅنٹ سے تمام رقم نکلوالے اور اس سے کچھ دن گزر بسر کرے۔بینک پہنچے پر اسے معلوم ہوتا ہے کہ بینک کا خودکار کمپیوٹر نظام خراب ہے۔آفیسرمارک سے دریافت کرتی ہے کہ اس کے اکاﺅنٹ میںکتنی رقم موجود ہے ۔ گھر کے کرائے کی ادائیگی اور بے گھر ہو جانے کا خوف اس قدر زیادہ تھا کہ مارک غلطی سے گھر کے کرائے کی رقم یعنی آٹھ سو ڈالر کا تقاضہ کر دیتا ہے جو کہ اس کے لاشعور پر سوار تھی،اسی اثنا میں کمپیوٹر سسٹم فعال ہو جاتا ہے اور کمپیوٹر بتاتا ہے کہ اکاﺅنٹ میں آٹھ سو نہیں بلکہ تین سو ڈالر موجود ہیں۔ اس کے باوجود آفسیر اسے آٹھ سو ڈالر ادا کر دیتی ہے کیونکہ اب تک جھوٹ ایجاد نہیں ہواتھا اور کمپیوٹر سے غلطی ہو سکتی تھی۔
مارک کے لیے یہ تجربہ حیرت انگیز تھااورسحرانگیزبھی کہ وہ ایسی بات کیونکر کہہ گیا جس کا واسطہ حقیقت سے نہیں۔ مارک اسی کشمکش میں مبتلا اپنی ماں کی تیمارداری کے لیے اسپتال جاتا ہے جہاں ڈاکٹراسے خبر دیتا ہے کہ اس کی ماں کچھ وقت کی مہمان ہے اورحالت نزاع میں خوف و ملال سے رو رہی ہے ۔ مارک پر اس قت تک ماورائی گفتگو کا بھید ظاہر ہو چکا تھا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے اپنی ماںکی حوصلہ افزائی کے لیے مابعدموت کا منظر کھینچا اور جنت کا ایسا تصور پیش کیا جو اس سے پہلے کبھی بیان نہ ہوا تھا۔موت کے بعد کی دلکش زندگی کے بارے میں معلومات حاصل ہوتے ہی مارک کی ماں کے آخری لمحات آسان ہو گئے اور وہ دنیا سے رخصت ہو گئی مگر موقع پر موجود ڈاکٹرز اور سٹاف کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اُن کے مابین ایسا شخص موجود ہے جو مابعد موت کے حالات بتاتا ہے۔
یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور میڈیا کے علاوہ لوگوں کی بڑی تعداد مارک کے گھر کے باہر جمع ہو گئے اور استفسار کرنے لگے کہ ان کے ساتھ مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ مارک جانتا تھا کہ اس نے جنت کا منظر محض اپنی ماں کی تسکین کے لیے کھینچا تھا مگر وہ یہ بات لوگوں کو سمجھانے سے قاصر تھا کہ وہ ماورائی گفتگو کا ہنر سیکھ چکا تھا جس سے وہ لوگ ناآشنا تھے۔
مارک نے لوگوں کے سوالوں کے جواب میں ایک دس نکاتی مفروضہ تیار کیا اور اسے الہامی قرار دیا اور یہ قیاس کیا کہ لوگوں تک ایسا پیغام پہنچایا جائے جس سے ان کے تجسس میں کمی ہو اور اس کے ساتھ ان کی اخلاقی قدریں بھی مضبوط ہوں۔چنانچہ مارک نے لوگوں کو گناہ اورثواب کے تصور سے آگاہ کرتے ہوئے اُس طاقت سے متعارف کروایا جو آسمانوں میں ہے ، جس کے امر سے کارخانہ ¿ قدرت چل رہا ہے، اس نظام کی بنیاد مکافات پر ہے یعنی جو لوگ اچھے اعمال کریں گے انہیں بعد از موت بہشت کی نعمتوں سے نواز اجائے گا جبکہ بد اعمال لوگ سزا کے مستحق ہوں گے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button