راجہ گدھ پر تبصرہ…… رضوان شاہ
#ادبی_تبصرہ
#راجہ_گدھ
زیر تبصرہ ناول کا مرکزی موضوع حرام، حلال اور انسانی سرشت کے گرد گھومتا ہے۔ حضرت انسان کے اس دنیا میں آنے سے لے کر دنیا میں ہونے والے بڑے بڑے کارناموں کے بعد چاہے وہ خیر کے ہوں یا شر کے۔۔۔۔۔ انسانی سرشت کے بارے سوال ضرور اٹھتے رہے ہیں۔۔۔۔۔
کائنات کی اہم اکائیوں کی بات کروں تو وقت کا شمار اہم ترین اکائیوں میں ہوتا ہے کہ وقت کے آگے کوئی بھی ٹھر نہیں سکا۔۔۔ بانو قدسیہ کا لکھا یہ ناول بھی وقت کی قید سے آذاد نہ رہ سکا اور مرکزی کردار قیوم وقت کی مختلف جہتوں میں مختلف کرداروں سے کہیں تو اثر لیتا رہا اور کہیں وہ کردار قیوم پر اثر انداز ہوتے رہے۔
ناول کے ابتدائی دور کی بات کروں تو پہلا سوال سیمی شاہ کی طرف سے اٹھا کہ اگر معاشرہ آئیڈیل ہو جائے تو کیا کوئی فرد کبھی خود کشی کر سکتا ہے؟
عقدہ کھلا کہ خود کشی اک نتیجہ ہے تو پھر اصلی وجہ دیوانہ پن ٹھہری اور دیوانہ پن ہوا نا آسودہ آرزووں کی وجہ سے۔۔۔۔ جو مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔
اس ابتدائی دور کے ایک کردار پروفیسر سہیل ہیں جو روایتی انسان سے ہٹ کر کتابوں میں رہتے ہوئے بھی اپنے اندر کے بچے کو زندہ رکھے ہوئے تھے۔ حرام حلال کی تھیوری دینے والے۔۔۔۔۔ حرام کو دیوانگی کی وجہ قرار دینے والے۔۔۔۔
سیمی شاہ گلبرگ کی پیداوار کہ جہاں مادیت پرستی اپنی انتہا پر ہوتی ہے اور جہاں ہر شے کا حصول آسان ہوتا ہے بس مشکل ہوتا ہے تو ذہنی سکون۔۔۔۔۔ سیمی شاہ جس کے لئے ہر لڑکے سے ہنس کر بات کر لینے میں کوئی مضائقہ نہ تھا مگر عشق لاحاصل کا شکار ہو بیٹھی اور عشق بھی آفتاب سے۔۔۔۔۔ سیمی شاہ جسے کوئی کچھ نہیں بتاتا تھا مگر پھر بھی اسے پتا ہوتا تھا۔۔۔۔ جس کے لئے اس کے محبوب سے بچھڑنے کے بعد اس کا جسم کوڑے کا ڈھیر تھا۔ کافور کے درخت تلے سیمی شاہ کی آنکھیں کہیں دور خلاوں میں گم کہہ رہی تھیں کہ
کاگا سب تن کھائیو میرا چن چن کھائیو ماس
دو نیناں مت کھائیو انہیں پیا ملن کی آس
آفتاب۔۔۔۔ اپنی ذات کی خود فریبی میں مبتلا۔۔۔۔۔ جس نے اپنے لئے آسان راستہ چنا یا پھر چننے کی کوشش کی۔۔۔۔۔ جس کا کہنا تھا کہ ہر فیصلہ میرے بیج میں پہلے سے موجود تھا اور ہونا تو وہی تھا جو فیصلہ ہو چکا۔ جو اس لئے لندن بھاگ گیا کہ شاید وقت۔۔۔۔ فاصلے۔۔۔۔ شاید دوری۔۔۔۔۔۔
قیوم۔۔۔۔۔ گدھ جاتی کا فرد کہ جو کبھی پہل نہ کر سکا اور ہمیشہ نوچے کھسوٹے، مردار اور ہر اس چیز کی طرف کشش محسوس کرتا رہا جو اس پر حرام تھی اور یہی قیوم کے ساتھ سیمی کے معاملے میں بھی ہوا کہ آفتاب کے لندن جاتے ہی راجہ گدھ کا وقت شروع ہو گیا۔ کافور کا درخت اور راجہ گدھ۔۔۔۔ ازل سے مردوں پر پلنے والی گدھ جاتی جو یہ نہ جانتی تھی کہ جسم کے ذریعے دل تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ جنہیں پہلے سے خبر ہو جاتی ہے کہ ان کا شکار مردہ کب جان ہارے گا۔ کرگس جاتی کو یہی حکم ہے کہ وہ عشق لاحاصل کے تعفن کو عام نہ ہونے دے۔۔۔۔۔ آخر فطرت کے خاکروب جو ٹھہرے
یہاں سوال یہ ٹھہرا کہ قیوم ایسا کیوں کرتا رہا؟ کیا یہ اس کی سرشت میں شامل ہے یا قیوم خود مجرم ہے؟
جس محبت کے بغیر معاشرے کی تشکیل کو ناممکن سمجھا جاتا ہے کیا وہی محبت معاشرے کا روگ تو نہیں بن بیٹھی؟
کیا دیوانہ پن تلاش کی معراج ہے؟
اور پھر سیمی شاہ مر گئی۔۔۔۔۔ وقت کی قید میں مقید قیوم کا یہاں سے اک نیا دور شروع ہوتا ہے
عابدہ سے قیوم کا سامنا
۔۔۔۔۔ عابدہ ایک ان دیکھے حصار میں قید جس سے باہر سوچنا اس کے لئے ممکن نہ تھا۔۔۔۔۔قیوم ناکامی عشق کے بعد حرام کی تلاش میں سرگرداں۔۔۔۔۔۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا کہ مصداق راجہ گدھ اپنے کام میں مگن رہا مگر کب تک۔۔۔۔۔۔ گدھ نے جسے مردہ سمجھا تھا اس میں ابھی جان تھی۔۔۔۔۔۔ وقت نے پھر اک اور دور میں جا کروٹ لی۔۔۔۔۔
اب اس دور میں قیوم کو امتل ملی
۔۔۔۔۔ روح کا حرام کھانے والے کو حرام رزق کھانے والی ملی۔۔۔۔۔۔جو کبھی خرانٹ بے حس بن جاتی اور کبھی پانچ سال کے بچے کی طرح معصوم۔۔۔۔۔ امتل اور قیوم میں یہ قدر مشترک تھی کہ دونوں کا تعلق گدھ جاتی سے تھا۔۔۔۔۔۔ دونوں مردار پر پلے تھے۔ قیوم وہ گدھ تھا جس کی صحبت امتل کو بھی راس نہ آئی اور قتل ہو بیٹھی۔۔۔۔
جب آخری وقت قریب ہو تو انسانی ذہن میں وہ خواہشیں بھی در آتی ہیں جواس کی فطرت سے میل نہیں کھاتیں۔۔۔۔۔ راجہ گدھ نے شادی کی خواہش کی تو وہاں بھی ٹھوکر کھائی۔۔۔۔
آقا انسان خود وحدت کی تلاش میں ہے مگر آرزووں کے جنگل میں گھومتا رہتا ہے۔۔۔۔۔ کثرت کی وجہ سے وحدت سے دو چار نہیں ہو پاتا۔۔۔۔۔
پھر فنا کا وقت قریب آ گیا اور آقا فنا کا خوف ہی دیوانگی کا سبب ہے اور انسان سے یہی فنا کا خوف مجھے ملا ہے
کاش ملکہ چیل کو میرے دیوانے پن پر اعتراض نہ ہوتا تو ہم پرندوں کے لئے نئی سمتیں، نئے دروازے، نئی جہتیں کھول دیتے۔۔۔۔۔ ہمارا دیوانہ پن بھی عرفان کی ایک شکل ہے۔۔۔۔۔۔۔!!!!!