Sohni Episode 1
سوہنی نے
پرفیوم اسپرے کرتے ہوئے دیوار گیر آئینے میں ایک آخری بار اپنے سراپے پہ الوداعی
نگاہ ڈالی۔۔
وہ جانتی تھی وہ بیحد مکمل اور خوبصورت لگ رہی ہے۔۔
ہر رنگ اسپے کھلتا تھا۔۔
سیاہ پہنتی تو اردگرد کی ہر چیز اس سیاہی کی خوش بختی پہ
رشک کرنے لگتی۔۔
سفید پہنتی تو زمین و مکاں دھندلا کے کفن پوش ہونیکی
خواہش میں گھل گھل جاتے۔۔وہ رنگوں کے لئے بنی تھی
اسے بچپن سے آئینہ دیکھنے کی عادت تھی آئینہ اسکا پہلا
عشق تھا۔۔
جب اسکے ساتھ کی بچیاں سہیلیاں گڈیاں پٹولے کھیلا کرتی
تھیں وہ ہاتھ میں آئینہ لیئے بار بار خود کو دیکھا کرتی تھی۔۔۔
کبھی بال بنانے کے بہانے۔۔کبھی کریم پاؤڈر لگانے۔۔کبھی
اپنی ٹھوڑی کے گہراو کو دیکھتی کبھی اپنے گال کے تل کو چھوتی۔۔
اماں غصے سے کوستیں
اینوں
اپنے آپ نال عشق ہوندا پیا۔۔وڈی لیڈی ڈینا (ڈیانا)..
صوفی جی تسی اینوں روکدے کیوں نئیں۔۔
کڑیاں دا کی کم ایس عمرے دوڑ دوڑ شیشیاں اگے کھلونا۔۔۔
ابا اماں کی باتوں پہ مسکراتے اور کبھی انگلی اور انگوٹھے کو جوڑ کے کبھی پاس
بلا کے کہتے بہت پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی۔۔اسکے قد کے مطابق دیوار پہ آئینہ لگا
چھوڑا تاکہ وہ خود کو مکمل دیکھ کے خوش ہو سکے۔۔۔
سوہنی اور اتراتی۔۔کھل کھل جاتی۔۔ہواوں میں اڑنے لگتی۔۔۔بال لہرا لہرا کے
دائیں بائیں کو مڑ مڑ کے دیکھتی ابا کن اکھیوں سے اسے دیکھتے رہتے اسکی بلائیں لیتے
رہتے۔۔
وہ مہندی لگاتی تو ابا کے پاس بھاگی آتی ۔۔
ابا دیکھو کتنا رنگ آیا ہے ۔۔
ابا ہاتھ چومتے۔۔اور بھیگی آنکھوں سے کہتے بہت پیارا رنگ آیا ہے۔۔میری
سوہنی کے ہاتھ ہی سوہنے ہیں۔۔مہندی کا کوئ کمال نئیں۔۔
اماں کہتیں۔۔چل جا کے پانڈے دھو کڑیاں دیاں زندگیاں مہندیاں نال نئ گزردیاں۔۔وسباں
نال گزردیاں۔۔چج سکھنے پیندے۔۔سونیاں صورتاں والیاں نوں بھاگ نی لگدے۔۔صورتاں دھپے
ساڑنیاں پیندیاں۔۔تد جا کے وسیبے ہوندے۔۔
ابا اماں کو ڈانٹ دیتے۔۔
ابا پڑھے لکھے تھے بیٹیوں کو ہی بیٹا سمجھتے۔۔زمانے سے ایک قدم ہٹ کر چلتے۔۔اپنی
ساری محبتیں ،ساری شفقت اپنی بیٹیوں پہ نچھاور کرتے۔۔
کہتے سوہنی کو کچھ نئیں کہنا
میرا پتر ہے یہ۔۔
پڑھے لکھے گی۔۔افسر بنے گی۔۔
سوہنی خواب بننے لگتی۔۔
افسری کا تو اسے پتہ نہ تھا۔۔
اسے تو بس آئینے دکھتے۔۔
ہر طرف چہار سو۔۔
قد آدم ائینے۔۔اور اپنا خوبصورت سراپا۔۔۔ڈھیر سارے پیارے پیارے جوڑے کپڑے۔۔
پھر ایک دن ایسا ہی ایک خواب دیکھتے اسکی آنکھ اردگرد مچے کہرام سے کھل
گئ۔۔
ابا کا ایکسیڈینٹ ہو گیا۔۔۔
ایک لمحے میں ابا سوہنی اور اسکی بہنوں کو اماں کیساتھ پرائ دنیا میں اکیلا
چھوڑ گئے۔۔
سوہنی سارا دن سامنے رکھی باپ کی میت کو یک ٹک دیکھتی رہی۔۔جنازہ اٹھا اور
ابا منوں مٹی تلے ہمیشہ کیلئے جا چھپے۔۔
پوری پوری رات سوہنی جلے پیر کی بلی کی طرح ابا کے کمرے میں چکراتی۔۔ابا کے
سائے دکھتے وہ بھاگتی ،گرتی
اسکے کان میں آوازیں پڑتیں۔۔
ابا کی دکان تایا نے ہتھیا لی ہے۔۔اماں پریشان ہے راشن ختم ہونیکو ہے۔۔ماموں
سر جھکائے کھڑے ہیں مامی اماں کو ساتھ رکھنے پہ تیار نہیں۔۔۔
ایک دن اسنے دیکھا۔۔
اماں نے سارے رنگین کپڑے گلی گلی پھیری کرنیوالے کو دیکر برتن لے لئے ۔۔۔۔اب
کپڑوں کے نام پہ اماں کے پاس کفن تھے۔۔سفید کپڑے تاروں پہ دیواروں پہ لہراتے
پھرتے۔۔اماں ہر وقت کفن پوش لاش کی طرح سفید کپڑوں اور سفید چادر میں ملبوس پینتیس
سال کی عمر میں ستر سال کی بیوہ دکھنے کو ہلکان ہوئ پھرتی۔۔۔۔
پہلے حصے کی اتنی مختصر تحریر میں زندگی کے کتنے ہی پہلو لکھ ڈالے۔۔۔